ناول: تنہا_سفر
از: رضیہ_احمد
قسط_نمبر_06
سمر خوشی خوشی رابیہ آنٹی کی گھر کی طرف لوٹا . رابیہ آنٹی نے جب سمر کے ہاتھ میں پیسا دیکھا تو پریشان ہوگئی . رابیہ آنٹی نے 
کچھ نہیں کہا . وہ جانتی تھی کے سمر کا کھیل کھیلنے کا اِرادَہ اکیلے کا نہیں تھا . مگر رابیہ آنٹی نے سمر کو کچھ نہیں بولا . سمر رابیہ آنٹی کے چہرے سے اندازہ لگا چکا تھا کے انہیں یہ سب پسند نہیں آیا . انہوں نے ہمیشہ سمر کو اپنی اولاد سے بڑھ کر چاہا ہے . لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کے کسی اولاد کو روکنا کچھ مناسب نہیں ہوتا چاھے کوئی کتنا ہی اپنا کیوں نا بن جائے . اِس وقت سمر کو جو کھیل کھیلنے میں مزا آ رہا تھا وہی مزا اسے زندگی میں کبھی نہیں آیا . ناشتے کی ٹیبل پر کافی خاموشی تھی . لیکن اتنا شور رات کو کلب میں ہوتا تھا . روزکھیل میں مگن ہوتا رہا اور ہر رات کو پیسوں کی گڈیاں اس کے ہاتھ میں کھیلنے لگی . ملکہ نے جب سمر کواس طرح چمکتا ہوا دیکھا تو اسے پِھر اس سے محبت ہو گئی . شہر کے مہنگے ترین اپاڑتمینٹ میں رہنے کا باندوبست بھی کیا اور ملکہ کے ساتھ وقت بتانے کی رسام کو بھی نبھاتا رہا . سمر آج رات کلب 
میں ویسے ہی اینٹر ہوا جیسے ہمیشہ سے ہوتا تھا . ہاتھ میں سونے کی گھڑی اور اسٹائل کسی سوپر ا سٹار سے کم نہیں . موم کو سمر کےبارے میں پتہ چلا تو انحونے اسے بہت منع کیا . لیکن سمر کا یہ کھیل کسی کاروبار سے کم نہیں
تھا . یہ سلسلہ کافی دنوں تک چلتا رہا . سمر کے دن اور رات کسی ہیرے کی طرح چمکاتی رہے

سمر : چیرز

آج کی رات شہر كے سب سے بڑے جواری کلب میں چیمپئن تھے . اور سمر نے ان کے ساتھ کھیل کھیلنا شروع کیا . مگر کھیل کچھ جام نہیں رہا تھا . سمر اپنے سکے اچھال تو رہا لیکن آہستہ آہستہ نوٹوں کی گڈیاں اس کے ہاتھ سے نکلتی گئی . سمر کے آنکھوں میں پریشانی اور ماتھے پر پسینہ تھا . صبح اَذان کے وقت جب وہ کلب سے باہر نکلا تو اس کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے . وہ 
اپنی گاری میں بیٹھا اور گھر چلا گیا

ملکہ : کم آن یار ، اس طرح مایوس نہیں ہوتے صرف دو لاکھ ہی تو ہیں نا ! ! آج رات کو تم ون کر جاؤگے . آئی ایم شیور

سمر نے پِھر کھیل کھیلنا شروع کیا لیکن اِس کھیل میں اب وہ ہارتا ہی رہا . سمر کی حالت کسی پاگل جیسی ہو رہی تھی . اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کے آخر یہ کھیل اس کے ہاتھ میں کیوں نہیں رہ پائی ؟ سمر نے 3 راتوں میں 3 قڑور کا نقصان کیا . اور جب اس نے مزید کھیلنے کے لیے اپنے دوست افی پیسے مانگے تو وہ کہنے لگا . 

افی : یار ، چور نا یہ سب کچھ ، میں تجھے اتنے پیسے ابھی نہیں دے سکتا . ویسے بھی میں کل اپنی وائف کو لیکر امریکہ جا رہا ہوں . وہاں سٹل بھی ھونا ہے . اسلئے پِھر کبھی یار

سمر : پلیز یار ، پلیز 20 ہزار کی ہی تو بات ہے 

افی : تو پِھر ہار جائیگا ، پہلے ہی تجھے میں نے بہت دے رکھا ہے تونے ابھی تک دیے بھی نہیں

سمر بنٹی کے پاس گیا. بنٹی نے سمر کی خوب انسلٹ کی اور کلب میں مذاق اڑایا . سمر کے ارد گرد سب چمک رہے تھے للیکن سمر کی چمک ان نوٹوں کی گڈیوں کے ساتھ کہیں غائب ہو گئی . ملکہ نے جب سمر کایہ رویا دیکھا تو وہ کلب سے باہر نکل گئی . سمر نے ملکہ کو بہت روکنے کی کوشش کی لیکن ملکہ اک پل کے لیے نہ رکی . اَذان کا وقت تھا اور وہی فقیر بابا اِس کلب کے آگےسے گذر رہا تھا . اِس بار بابا کے چہرے پرسنجیدگی تھی . سمر کہیں دور تک اس بابا کو دیکھتا رہا اور پِھر اس بابا کے پیچھے قدم بھرہاتا گیا . وہ بہت غصے میں تھا اور آج تو اس نے تھانلی ہی لی تھی کے بابا کو اسکی اوکت یاد دلادیگا.سمر 
اک دکان کے سامنے سے جب گزرا تو نیچے پرے پتھر کی وجہ سے اسےٹھوکر لگی اور وہ گر پڑا . جب اس نے اس دکان کے آئینے میں خود کو دیکھا تو خوف زدہ ہو گیا . اس نے بھاگنا شروع کر دیا . اسےخود سےگھن آ رہی تھی ، . جو بھی آئینہ اس کے سامنے آتاوہ خود کو فقیر کی ہالٹ میں دیکھتا . یوںبھاگتے بھاگتے اِس اندھیری رات میں وہ کہیں گر پڑا 
تنہا سفر . . . سمر اب اِس اک ایسی موڑ پر تھا جہاں اسکی پرچھائی بھی اسکا ساتھ دینے سے منع کریگی . جہاں پر اسےکہاں پناہ ملے گی . کیا ھوگا اسکا . اک زمانہ تھا جب سمر نشے میں دوتھ اور شور شرابے میں رہنے کا عادی تھا . اب شایداسےاب یہ بھی نصیب نہ ہو . اب وہ شاید ہمیشہ تنہا رہے . تنہا سفر ، دوست احباب سب کچھ چھوٹھ گیا . سمر کا کھیل ختم اور پیساحزم . محبت ؟ ؟ اسکی تو 
بات ہی نہ کرو . . . وسے تو ملکہ نے بڑی بڑی باتیں کی تھی کے وہ سمر سے شادی کریگی . لیکن فقیر سے شادی کون کرتا ہے . ملکہ نے بھی سمر کے ڈیڈ کا بدلہ پِھر سمر سے لیے

 لو ! ! تمہارا بیٹا فقیر ہو گیا توقیر ! خوشیا مناؤں

بنٹی کو سمر سے کوئی دلچسبی نہیں تھی اور افی کا ساتھ بس یہی کا تھا . جب کبھی سمر ہیرے کی طرح چمکتا تھا تو افی ہر وَقت کسی ٹوٹے کی طرح اسکی بات کرتا لیکن اب . . . بچپن کی دوستی کا یہ صلہ ؟ سمر کا تنہا سفر . . . اب شُرُوع ہو چکا ہے 
کیا عجیب بدبودار جاگا تھی . صبح صبح اَذان کی گنوج اور سورج نکلنتک مرغوں کی کائی کائی . . . سمر نے اانگرےزی میں گلیاں دینی شُرُوع کردی

سمر : شٹ اَپ بی کوائیٹ

سمر ! ! آنکھیں کھولو اور دیکھو کے تُم کہاںہو ؟ ! ! ! ! ! ! ! !

 سمر اٹھ کر بیٹھ گیا . اس نے زور سے اپنے نوکر کو گالی دے کر کافی کی ڈیمانڈ کی . مگر کوئی نوکر چاکر نہیں تھا . اس نے اپنے آپ کو دیکھا تو سامنے اک گندا سا آئینہ لگا ہوا تھا . اُسکے کونے بھی ٹوٹے ہوئے تھے اور سمر کا حلیہ کافی بگڑ چکا تھا . اُس کمرے کا در رنگ کافی اڑا ہوا تھا . کسی کیچڑ جیسی کمرے کی حالت تھی اور بدبو اُف

 ابے اوئے ! ! یہ تو وہی فقیر ہے ! ! لیکن اتنے اتنے اچھے حولیہ میں کیسے آ گیا ؟ مجھے پہلے سے ہی مالوم تھا کے اس طرح کے فقیر امیر ہوتے ہیں . سڑک پر تو فقیروں والے کپڑے ، یہاں مولوی گٹ اَپ ؟ ؟ اسکی تو میں ! ! ! ’ ’
بابا : اسلام علیکوم بیٹے . کیسی طبیعت ہے تمہاری ؟ ؟

سمر : میں کہاں ہوں اور تُم ؟ ؟ تُم تو وہی فقیر ہو نا . میری حالت تمہاری وجہ سے ہوئی ہے . آخر تُم چاھتے کیا ہو ؟

بابا : میں تو تمہیں خدا کے رستے پر دوات دینا چاہتا ہوں 

سمر : کیا ؟ ؟

بابا : اٹھو ! خود کو پاك صاف کرو اور اللہ کو یاد کرو 

سمر : میں کوئی مولوی کا بیٹا لگتا ہوں تمہیں . مجھے یہاں سے جانا ہے . تمھارے اُس خدا کی وجہ سے میری یہ
 ہالت ہوئی ہے اور تم نے بھی میری اِس حالت میں چھاڑ چاند لگا دیئے . ہٹو یہاں سے

 جیسے ہی اس نے باہر قدم رکھا اس نے دیکھا کے اک بہت سادی سی بستی تھی . بچے کھیل رہے تھے اورعرتوں نے برقہ پہنےہوئے تھے . نماز کا وَقت تھا اور اَذان اُس بستی میں گونجنے لگی . سسمر اُس بستی سے بھاگتا ہوا نظر آیا لیکن وه بستی بھی کچھ بوھل بلیاں جیسی تھی . کبھی اِس گلی میں سے نکلے تو کبھی کسی اور گلی میں سے . اس نے 
باہر نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن نہ کامیاب رہا . پِھر اک آخری گلی رہ گئی جیسے وه اُس گلی میں داخل ہوا سامنے بابا کھڑا تھا
.
بابا : کیا ہوا بیٹے ؟ گھر جانے کا رستہ نہیں ملا ؟

سمر : نہیں . . . میں یہاں کیوں ہوں بابا ؟

بابا : یہ تو میں نہیں جانتا . خدا بہتر جانتا ہے . آؤ ، کپڑے بَدَل لو اور کچھ کھالو . اَذان کا وَقت ہے میرے ساتھ مسجد چلو 
سمر کیا کرتا ؟ وه خاموشی سے بابا کے پیچھے چل پڑا . بابا نےاسے صفید رنگ کے کپڑے دیئے

 اُف ! ! ! ! پِھر وہی فقیروں والے کپڑے . اور وه بھی سفید ؟ کہیں میں مرنے والا تو نہیں ؟ ؟ ویسی بھی میرے باپ نے مجھے جیتے جی مر دیا ہے . زندہ لاش کی طرح گھومتا رہوں گا . لائف اِس شٹ

سمر خاموشی سے تیار ہو کر 
بابا کے کچن میں جا کھڑا ہوا . ویسے شلوار قمیض میں سمر کافی اچھا لگ رہا تھا . بابا نے اسے نماز کے لیے اک ٹوپی تحفے میں ڈی اُس گندھے پر اک چادردی اور اسے اپنے ساتھ مسجد لے گیا . سمر زندگی میں پہلی بار مسجد کے اندر داخل ہوا . کافی سارے مرد تھے وہاں جن کا لباس سمر کے لباس سے ملتا جلتا تھا . بابا نے سمر کو پہلی صفت میں کھڑا ہونے کو کہا . سمر ان مسلمانوں میں اک عجیب نمونہ لگ رہا تھا .ن مونہ اسلئے کیوں کےسمر کو یہ سب نہیں آتا تھا نہ ہی اس نے کبھی زندگی میں نماز پڑی تھی اور نہ اس نے کبھی کسی مسجد کو اندر سے دیکھا تھا . مولوی صاحب نے نماز پارحانی شُرُوع کی . سمر کا دھیا ن نماز میں نہیں بلکہ دوسرے لڑکوں کی طرف تھا . کب کون کس وَقت کیا کرتا ایک ہاتھ کی دوسری انگلی اٹھاتا تو کب کوئی ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا . یہ سب لوگ کچھ ننہ کچھ منہ میں بول رہے تھے . لیکن کیا ؟ ! بابا سمجھ گئے . کچھ لڑکوں نے سمر کی حرکتیں دیکھی تو آپس میں باتیں کرنے لگے . بابا نے یہ 
نظارہ دیکھا تو وه مسکرا پڑے اور سمر کو آنکھوں آنکھوں میں اشارے سے تسلی دی . صمر کچھ شرمندہ ہو رہا تھا

، ، ساری عمر میں باپ کی پیسو کی پوجا کرتا رہا ہوں ، اب مجھے نماز نہیں آتی تو اِس میں میرا کیا قصور ہے ؟ ’ ’ 

بابا : آپ سب لوگ جائے رات کو ملاقات ھوگی انشا اللہ

بابا نے سمر کےکندھے پر ہاتھ عکھااور مسکزراتی ھوے بولے 

بابا : فکر نا کرو بیٹا ، تُم بھی جلدی یہ سب کچھ سیکھ جاؤگے

سمر : بابا ، میں نے کبھی نماز نہیں پڑھی 

بابا : لیکن تُم مسلمان تو ہو نا 

سمر : ہاں . . . شاید

بابا : شاید نہیں ، یقینا

سمر اور مولوی صاحب اِس بستی کی سیر پر نکل گئے . جس گھر کے سامنے سمر گزرتا سادگی دکھائی دیتی . مگر وه سادے لوگ اِس حالت میں سمر سے بھی زیادہ خوش نظر آ رہے تھے . اک بہت ہی پیاری ماں جیسی خاتون سمر کو دیکھ کر مسکرائی . برقہ والی لڑکیاں سر جھکا کر چلی جا رہی تھی . کچھ بچے ٹوپی پہنے گلی میں کھیل رہے تھے . ان کے کپڑے سمر سے بھی زیادہ چمک رہے تھے . بابا اکیلا رہتا تھا . اسکی بِیوِی کا بہت سال پہلے انتقال ہو گیا تھا

سمر : مولوی صاحب ؟ یہ بستی میں اتنا سکون کیوں ہے ؟ 

مولوی صاحب : یہاں سب اللہ والے ہَیں . سب اسے یاد کرتے ہَیں اسلیے سب خوش ہَیں

سمر نے اک بار پِھر سب کے 
چہروں کی طرف دیکھے . واقعی ! ! ! سب لوگ بہت خوش تھے اور چہروں پر سکون تھا

 کاش ، میری زندگی میں بھی ایسا سکون ہوتا . کاش لوگ مجھے بھی دیکھ کر ی رشک کرتے کے دیکھو سمر کتنا خوش ہے ، سمر کے چہرے پر سکون دیکھتے . مگر یہ سب تو قسمت والوں کو ملتا ہے . مجھے تو اللہ بھی لکھنا نہیں آتا اسے یاد کیسے کرونگا ؟

مولوی صاحب : کیا سوچ رہے ہو ؟ 
سمر : کچھ نہیں

مولوی صاحب : تم بھی انکی طرح باننا چاھتے ہو ؟ 

سمر : پتہ نہیں ، شاید

مولوی صاحب : تم کہاںسے آئے ہو ؟ 

سمر : میں کچھ نہیں جانتا مولوی صاحب کے میں کہاں سے آیا ہوں . وہاں بہت شور تھا

بابا : اکثر لوگ شور میں سکون تلاش کرتے ہَیں . باہر سے تو شاید انہیں سکون ملتا ھوگا لیکن اندرونی سکون تو
 صرف اللہ کے ذکر سے ہوتا ہے . چلو گھر چلتے ہَیں 
سمر جب گھر پوحونچا تو مولوی صاحب نےاسے کھانا کھلایا سمر نے پہلی بار زمین پر بیٹھ دسترخواں پر كھانا کھایا تھا . چٹای بہت صاف تھی اور جس زمین پر چٹای پری ہوئی تھی وہ تو کسی ہیرے کی طرح چمک رہی تھی کچھ دن پہلے سمر خوباورت ڈیزائن والے بڑترنوں میں كھانا کھاتا رہا . لیکن آج اس نے اک سادی سی پلیٹ اور اسٹیل کے گلاس میں پیٹ پوجا کی . جب اُس کے سامنے دال آئی تو . . . مولوی صاحب سمجھ گئے ، کے شاید
اسے دال نہیں پسند۔ سمر نے دال کا ایک لقمہ اپنے منہ میں ڈالا ۔ وہ دال تو گھر کے بنے ھوے ْورمہ سے بھی لزیز تھی۔
 . سمر بہت بھوکا تھا . اس نے جی بھر کے كھانا کھایا . دال اور روتی ختم ہو گئی . گھر میں دال کا اک بھی دانہ نہیں تھا اور جتنا آٹابچہ تھا اسکی ہی روتیاں ان دونوں نےکھالی . سمر کو سکون آ گیا . دونوں سونے چلے گئے . سمر آج کی رات سکون کی نیند سویا . اتنی سکون کی نیند تواسے اپنے مہنگے ترین بستر پر بھی نہیں آئی . صبح جب سمر اٹھا تو مولوی صاحب اسے گھر پر نہ دکھے . اس نے سارا گھر چھان مارا لیکن مولوی صاحب کی کوئی خبر نہیں تھی . باہر گلی میں پوچھا تو مولوی صاحب تو مسجد کی طرف جا چکے تھے سمر نے جلدی سے اپنا ہولیا ٹھیک کیا اور مسجد کی اوڑھ چلا گیا . سامنے سے مولوی صاحب آ رہے تھے . سمر نے انہیں دیکھ کر سکون کا سانس بھرا

مولوی صاحب : کیا ہوا ہے بیٹا ؟ تم اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو ؟ 

سمر : میں وہ . . . آپ گھر پر نہیں تھے . آپ کہاں تھے

مولوی : میں تو مسجد میں تھا . چلو گھر چلو ، آج بارش کا موسم بن رہا ہے

وہ دونوں گھر کی طرف روانہ ہوئے . گھر پوحونچنے تک بارش کے قطروں کی آمد د ہوئی . وہ دونوں کافی بیگ چکے تھے . جب گھر پوچونکی تو چھت میں کافی جگوں سے بارش کے بوندیں ٹپک رہی تھی . مولوی صاحب نے جلدی سے کچھ بالٹیوں کا انتظام کیا اور ان بوندوں کے نیچے کھڑی کردی . سمر بہت بھوکا تھا . اس نے لیکن مولوی صاحب سے ناشتے کی ڈیمانڈ نہ کی . مولوی صاحب خاموشی اک سوکھی جگہ پر چٹائی دال کربیٹھ گئے . انہوں نے سمر کو بھی اپنے پاس بیٹھنے کی دوات ڈی  

مولوی : بھوک لگی ہے ؟ 
سمر : نہیں

مولوی : میں تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں . تمہیں 12 بجے سے پہلے اٹھنے کی عادت نہیں تھے . ناشتہ تمہارا لنچ ٹایم پر ہوتا تھا . رات کا 
كھانا کلب میں ہوتا تھا . لیکن یہاں پر تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے . پتہ نہیں آج ہم کچھ کھا بھی سکیں گے کے نہیں 
سمر : کیا مطلب ؟ 

مولوی : اسے اپنا ہی گھر سمجھو

سمر ہڑبڑاکر کر اٹھا اور کچن میں چلا گیا . سب ڈبے صاف تھے . کوئی اک بھی دانہ نہیں تھا . سمر نے اگر اِس وقت كھانا نہ کھایا تو وہ تو مر جائیگا ! ! ! کیا سمر یہاں مرنے کے لیے آیا ہے ؟ ؟ 

سمر : مولوی صاحب ، وہاں تو سب کھالی ہے ! میں بازار سے کچھ لے کرآتا ہوں 

مولوی : پیسےہَیں تمھارے پس ؟ 

سمر نے اپنےکپڑوں پر ہاتھ مارا .اسے یاد آیا کے وہ تو فقیر ہو چکا ہے . سمر خاموشی سی مولوی صاحب کے پاس بیٹھ گیا . مولوی صاحب اسے پیار 
سے دیکھتے رہے . سمر ٹھنڈے فرش پر اور گیلی دیوار پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا . اسکی آنکھوں میں آنسوں تھے . نہ ہاتھ میں ریڈ وائن نہ برگر . نہ گاری کا اے سی . مولوی صاحب دعا کرتے ہوئے نظر آئے . سمر نے جب یہ نظارا دیکھا تو اسکا خون گھولنے لگا . لیکن وہ کیا کرتا ؟ 

 عجیب ، انسان ہے یہ ؟ ؟ کچھ انتظام کرنے کی بجاے دعا مانگ رہا ہے . اب پیسے اِس کے پاس بھی نہیں اور نہ ہی میرے پاس . باہر کسی سے مانگ لے كھانا

مولوی : آمین . . . تم کچھ کھاؤگے بیٹا ؟ 

اچھا ؟ ؟

سمر : جی ؟ 
مولوی : باہر کوئی دستک دے رہا ہے

سمر جب اٹھ کر گیا تو اک بچہ ہاتھ میں تھالی لیے کھڑا تھا . اُس تھالی کے اندر حلوہ پوری تھی . سمر کی بھوک وہ كھانا دیکھ کر ہی ختم ہو گیی . دونوں نے كھانا کھایا اور دن بھر مسجد میں وقت گزارنے کا اِرادَہ کیا . سمر نے وہاں آتے جاتے لوگوں کو دیکھا . وہ بہت خوش تھے . ان کے چہروں پر سکون تھا . لیکن پِھر بھی کچھ مرد ایسے تھے جو سمر کو دیکھ کر باتیں کر رہے تھے . سمر سمجھ گیا . کے شاید انہیں اس کا یہاں انا اور اس طرح بیٹھنا اچھا نہیں لگا . مولوی صاحب نے سب ان مردوں کی باتیں سنی تو وہ بہت سنجیدہ ہو گئے . شام کو عشاء کی نماز کے بَعْد دعا کے بعد مولوی صاحب نے سب کو مخاطب کیا

مولوی صاحب : کیا ہم سب مسلمان ہَیں ؟ 

مرد : جی ،

مولوی صاحب : میں آپ سب کو ایک نئے فرد سے ملانا چاہتا ہوں
اس کا نام سمر ہے . یہ اک بہت بڑے اور امیر گھر کا بیٹا ہے . اس نے اپنی ساری زندگی شور میں گزاری ہے . اور اللہ نے اسے یہاں بھیجا ہے تاکے یہ ہم سب کی طرح سکون کی زندگی گزارے . اسے نماز نہیں آتی . اس نے کبھی مسجد نہیں دیکھی . کیا ہم مسلمان اِس شخص سے منہ پھر لیں؟ کیا ہمارے پیا رے آقاﷺ نے کبھی ایسے لوگوں سے کبھی منہ پھیرے تھے ؟ 

مرد : نہیں ! . . . وہ تو سب دوات دیتے تھے

مولوی صاحب : تو ہم کون ہَیں ؟ کس کی امت میں سے ہَیں ؟ 

ایک آدمی ، جس نے کچھ زیادہ ہی باتیں کی اس نے ہاتھ کھڑا کیا 

مرد : مولوی ، صاحب میں معافی چاہتی ہوں . شیطان نے مجھے غلط رستے پر چلایا . سمر بھائی . آپ مجھے معاف کردیں. آپ ہم سب میں نے سے ہَیں . تو کیا ہوا اگر آپ کبھی مسجد نہیں آئیں . ہَیں تو 
آپ ہمارے بھائی . ہمیں معاف کردے بھائی

باقی مردوں نے بھی معافی مانگی 

سمر : نہیں نہیں ، ایسی کوئی بات نہیں ہے ، میں خود شرمندہ ہوں

مولوی صاحب : سمر بیٹا ، تم یہاں محفوظ ہو . یہاں کوئی شور بھی نہیں ہے

سب مردوں نے سمر کو اپنا لیا . سمر کی سب مردوں سے اچھی بات چیت ہونے لگی . وہ روز مولوی صاحب کے ساتھ مسجد نماز ادا کرتا ، اور خوشی خوشی مولوی صاحب کے ساتھ گھر جاتا . کبھی اسے کچھ کھانے کو ملتا تو کبھی نہیں . جب موسم خراب ہوتا تو وہ دونوں مسجد میں ہی رات گزارتے . سمر پہلے سے زیادہ خوش نظر آنے لگا . اسے بھوک کی اتنی کمی محسوس بھی نہ ہوتی . دوسروں کو دیکھ کر سمرکے دِل میں نماز اور کلمہ سیکھنے کا خیال آیا . وہ مولوی صاحب سے کچھ نا کہتا لیکن مولوی صاحب 
اُس کے چہرے کا تاثرات دیکھ کر سمجھ جاتے . سمر کی زندگی تبدیل ہو چکی تھی . سمر کا اُس چھار دواری میں کوئی خاص دِل نہیں لگتا تھا . ہمیشہ کوئی نہ کوئی اسے اپنے ساتھ مسجد لے جاتا . اور مولوی صاحب بھی خوش ہوتے کے چلو سمر کا دِل لگ گیا ہے . سمر اپنے اندر اِس تبدیلی سے بے حد خوش تھا . اس نے آہستہ آہستہ اپنا دِل اُس بستی والوں سے لگا لیا . آہستہ آہستہ اس نے قرآن اور نماز کی طرف اپنا رجحان کیا . اس نے کئی سوال کیے . بعض سوالوں کے جواب اسے ملتے تھے اور باز کے نہیں . یوں وقت بیت تا گیا اور اُس کے اندر سکون پیدا ہونے لگا . 6 مہینے گزر چکے تھے . سمر نماز کے بعد بیٹھا تسبیح کر رہا تھا . اُس کے بدن پہ وہی سفید جوڑا ، ہاتھ میں تسبیح اور چہرے پر داڑی . مولوی صاحب کے ساتھ چلتا ہوا انکا بیٹا لگتا تھا . بات میں تہذیب ، ادب ، شرم ، دبی دبی سی مسکراہٹ . شام کا وقت تھا اور سمر مغرب کی اَذان کے لیے تیاری پکڑ رہا تھا . رمضان بھی نزدیک تھا . نماز کے بَعْد مولوی 
صاحب اور کچھ مردوں نے مسجد میں سحری اور افطاری کی ذمہ دری اک دوسرے کو دی . سمر نے مولوی صاحب کو سوالی نظروں سے دیکھا . کیوں کے وہ جانتا تھا کے کبھی کبھی 1 وقت روتی بھی نہیں ہوتی گھر میں تو مولوی صاحب سحری کی پیشکش کیسے کر سکتے ہَیں ؟ مگر سمر نے پِھر بھی حامی ببھرلی ، اسکا ایمان اب اتنا مضبوط تو ہو چکا تھا کے اگر مولوی صاحب نے کوئی ذمہ دری اُٹھائی ہے تو اللہ انتظام کرلیگا. رات بہت گہری تھی اور مولوی صاحب تسبیح کر رہے تھے . بہت گرمی تھی اور سمر کو بھی نیند نہیں آ رہی تھی . سمر مولوی صاحب کے پاس اٹھ کر بیٹھ گیا . اُس کے منہ میں اک سوال غم رہا تھا

سمر : مولوی صاحب ، اک باٹ پوچھوں ؟ 

مولوی : ہاں ضرور

سمر : میں جب سے آپ کے ساتھ رہتا ہوں تب سے میں نے دیکھا ہے اپنے کبھی کسی سے نہیں مانگا سیواۓ 
اللہ سے ، کبھی کبھی ہم لوگ بھوکھے بھی رہ جایا کرتے ہَیں . مگر مجھے کوئی اعتراض نہیں . لیکن آپنے جو سحری کی ذمہ دری اُٹھائی ہے ، اسکا سامان کہاں سے آئیگا ؟ آپ تو اتنے بزرگ ہَیں کے آپ مسجد تک پوحونچ کر تھک جاتے ہَیں . میں اِس میں کیا کر سکتا ہوں ؟ ؟ 

مولوی : جب باقی چیزیں اللہ نےدی تو اس کا انتظام بھی اللہ کریگا 

سمر : اپنے کبھی اِس مکان کا کرایہ نہیں دیا 

مولوی : یہ مکان . . . میری بیگم کا ہے . میں جب شادی کر کے اِس مکان میں آیا تھا تو اِس مکان میں کچھ بھی نہیں تھا . لیکن میری بیگم نے اسے سجا دیا . اور میرے لیے چور گئی . سوچتا ہوں ، جب کبھی اپنی بیگم سے ملوں گا تو . . اِس مکان کا کرایہ بھی ادآ کار دونگا . لیکن پِھر میری بیگم مجھے خواب میں آکے مجھے بہت ڈانٹ دے تی ہے اور کہتی ہے . مولوی صاحب کیسی باتیں کرتے ہیں ؟ دلوں میں بھی رہنے کے کوئی کرائے ادآکرتا ہے ؟

سمر زور سے ہنس پارا . اور مولوی صاحب نے بھی جواب میں قہقہ لگایا . سمر اپنے بستر پر جاکے سو گیا . اگلےدن صبح فجر کی نماز پڑنےجب اٹھا تو سمر نے گھر کے دروازے کےآگے ایک آٹے کی بوری کو دیکھا اللہ کا شکر ادا کیا اس نے بوری اندر رکھی . سمر سمجھ گیا کے مولوی صاحب کی کوئی بات غلط نہیں ہو سکتی . سمر خوشی خوشی مسجد کی طرف روانہ ہوا . جیسے ہی وہ لوٹا تو گھر کے سامنے چاول کی بوری پڑی ہوئی تھی ، اس نے خوشی خوشی وہ بوری اٹھا کر اندر رکھی . سمر کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کے وہ کس منہ سے اللہ سے شکر ادا کرے . رمضان کا پہلا ہفتہ وعدہ کے مطابق مولوی صاحب کے گھر سے سحری بن کے جاتی تھی . اور ہر بار سے زیادہ . سمر نے رمضان میں کوئی دعا نہیں چوری . کوئی اللہ کا قلام نہیں چورا . اس کے چہرے پر خوشی تھی اور زندگی میں بے انتہا سکون 
تھا . عید کا دن تھا اور سب لوگ بہت خوش تھے . مزے مزے کے پکوان ایک دوسرے کے گھروں میں بھجھواے جا رہے تھے . بچے باہر کھعیل رہے تھے . بستی کسی دلہن کسی طرح سجی ہوئی تھی . آج مولوی صاحب بھی بہت خوش تھے . شام بہت خوب تھی . بستی کی گلیوں میں تارے چمک رہے تھے . سمر کو اک پیغام آیا

مولوی : شادی کرنا چاہو گے ؟ 
سمر : جی ؟

جاری ہے ۔۔۔