ناول: تنہا_سفر
از: رضیہ_احمد
قسط_نمبر_03

بنٹی : یار تم ان فضول خوابوں کو مانتے ہو ؟ 

سمر : یار یقین کر بڑی خوفناک آواز تھی آئی ڈونٹ نو میں خواب میں زندہ باہر کیسے 
آگیا 

بنٹی : یو نیڈ آ ٹریٹمنٹ یار ، مت سوچا کر ایسی باتیں کے تجھے اس ترہ کی چیزیں خواب میں دڑایں 

سمر : کونسی باتیں ؟ ؟

بنٹی : وہی ریڈ وائن والی 

سمر : شٹ اپ یار

ہاہاہا بنٹی کو سمر کا موڈ ٹھیک کرنا بہت اچھا طرح آتا تھا ، دونوں دوست شام تک سمندر پر اپنا وقت بتاتے رہے . رات کو ڈنر کرنے کے بَعْد سمر اور بنٹیی کلب چلے گئے . وہاں کافی رونق تھی اور سمر کا موڈ بھی کافی اچھا ہو رہا تھا . بنٹی اک گامبلنگ کی ٹیبل پر جا کر بیٹھ گیا اور گامبلنگ کرنے لگا . سمر یہ سب دیکھ رہا تھا . بنٹی ہر بازی میں جیت رہا تھا اور دونوں دوست کافی لطف اندوز ہو رہے تھے . رات بہت گہری ہوچکی تھی اور سمر کی آنکھیں نیند کے 
لیے جھول رہی تھی

بنٹی : مزہ آیا نہیں ؟

سمر : ہاں یار ، یار تونے کیسے باز مرلی ؟

بنٹی : بس یار قسمت کا کھیل ہے سب . تونے کبھی ٹرائی نہیں کیا 

سمر : اسمیں ہارنے کے بہت چانسس ہوتے ہیں یار . دی پلیئر ہیس تو بے لائک یو 
بنٹی : لے! تو میں سکھادونگا اور بتا

سمر : آئی ڈونٹ نو یار

بنٹی : زیادہ سوچ مت اور ٹرائی مر لے . یو ول انجوئے 

سمر : ہاں آئی ول انجوئے آفٹر مائی ڈیڈ ول کم تو نو اباؤٹ دس 

بنٹی . تو انکل سے بہت ڈرتا ہے ؟ 

سمر : نہیں مجھے کوئی ڈر نہیں پڑا ہوا انکا بٹ اسٹل یار انکا پیسہ یوں گامبلنگ اُڑانا اِس ناٹ آ گڈ آئیڈیا 

بنٹی : کیا مطلب ؟ تیرے خود کے پیسے نہیں ہے کیا ؟ تیرا کوئی حق نہیں ان پیسوں پر ؟ تیرے نام اتنی زیادہ
 جائِداد بھی تو ہے نا جانی 

سمر: وہ میرے نام تب ھوگی جب میں مسٹر بلال کی بدصورت بیٹی سے شادی کرونگا 

بنٹی : اچھا تو یہ بات ہے . تونے مسٹر . بلال کی بیٹی دیکھی ہے کیا 

سمر : نہیں یار . بٹ آئی نو شی وانٹ بے دیٹ ٹیسٹی لائک دی ریڈ واین

بنٹی : کیا پتہ

سمر : ہاں تجھے بڑا پتہ ہے
بنٹی : ویسے اک بات تو بتا تونے ریڈ وائن ٹیسٹ کیا ؟ 

سمر : نہیں

بنٹی : لو بھئی آ گیا تمہارا بنگلہ . تم اترو شاباش ! جان چور میری 
سمر : تھینک یو سو مچ فور دس لولیّ ڈے

بنٹی : واپس دے

سمر : کیا دوں

بنٹی : ڈے میرا ! خراب کر دیا

سمر : ہیں ؟ 

بنٹی : ابے کمینے تھینک یو کیوں بولا تونے ؟ واپس دے میرا اتنا قیمتی وقت ضایع کیا 

ہا ہا ہا ہا ، بس یہی تو زندگی تھی سمر کی اس کے دوست اسکی آزادی . اور اب ، ، ریڈ وائن ’ ’ . اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی سمر کو ملکہ کا پیغام آیا

ملکہ :ہیلو ہینڈسم کہاں ہو ؟ گاری 
ٹھیک ہو گئی تمہاری ؟ 

سمر: ہاں ہو گئی میں سارا دن بنٹی کےساتھ تھا . ابھی گھر آیا ہوں

ملکہ : کوئی کام نہیں ہے تمہیں ؟ ہر وقت بنٹی کے ساتھ چپکے رہتے 

سمر : ہے اِس مائی جگر 

ملکہ : اور میں ؟ ؟ 

سمر : مائی ریڈ وائن . . تم ہو کہاں واپس کب آ رہی ہو ؟ 

ملکہ : میں اس وقت امریکہ میں ہوں اک مہینے کے لیے آئی ہوں مائی کزنسسٹر اِس گیٹنگ میرڈ 

سمر : اُف ، اِس اک مہینے میں کیا کرونگا تمھارے بغیر ؟ 

ملکہ : میری یا ریڈ وائن کی ؟ 

سمر : آہ . . . یو نو واٹ آئی وانٹ ٹو سے 

ملکہ : گڈ نائٹ 

سمر : گڈ نائٹ

صبح ناشتے کی ٹیبل پر کافی خاموشی تھی . ڈیڈ کا موڈ بہت آف تھا اور موم بھی خاموشی سے ناشتہ نوش فار ما رہی تھی . سمر کسی سے آنکھ ملنے کے حق میں نہیں تھا . جیسے ہی ڈیڈ نے اورنج جوس کی آخری چسکی لی تو انہوں نےاپنی بیگم صاحبہ کو مخاطب کیا

ڈیڈ : فریحہ ، آج کیاپروگرم ہے تمہارا ؟ 

موم : آج تو میں چیرٹی کے لیے جا رہی ہوں اور پِھر شام کو مسز فاروق کے گھر پارٹی ہے انکی 20تھ اینی ورسری بھی ہے

ڈیڈ : ھم ، میری تو میٹنگ ہے بلال صاحب کے ساتھ . اور شام کو تمھارے ساتھ پارٹی میں بھی جانا ہے

موم : اچھا ، مسٹر بلال کو کبھی گھر بلائے نا

ڈیڈ: ہاں ، میں بھی یہی سوچ رہا ہوں . میں سوچ رہا تھا کے پوری فیملی کو انوائٹ کرلوں . سمر اور انکی بیٹی اک
 دوسرے کودےکھ لیں پِھر بات پکّی کردینگے . کیوں بیٹا ؟ 

سمر : ڈیڈ ! آر یو کڈنگ میں ؟ آپکو کیا لگتا ہے میں آپکی پسند سے شادی کرونگا

ڈیڈ : شادی تو تمہیں کرنی پڑے گی . اور وہ بھی میری پسند کی

سمر : آپکی پسند کی . . . تو آپ کرلو

موم : سام ! بیہیو یورسیلف !استرح بات کرتے ہیں اپنے ڈیڈ کے ساتھ ؟ معافی مانگو

سمر : کس بات کی معافی ؟ شادی کرنی ہے تو اپنی مرضی کی لڑکی سے کروں نگا آپ لوگوں کی مرضی سے نہیں 

موم : ہم تمھارے پیڑینٹس ہیں 

سمر : ہاں پیڑینٹس ہیں تو پیڑینٹس کی طرح بیہیو کرے نا
اپنے بیٹے کے ساتھ بھی سودا کر رہے ہیں 

ڈیڈ : فریحہ ! میں جا رہا ہوں . یہ لڑکا میری برداشت سےباہر ہوتا جا رہا ہے 

سمر بھی وہاں سے اٹھ کر چل جاتا ہے . موم وہی پریشان بیٹھی رہتی ہیں . سمر سارا دن اپنے روم میں بند رہا . شام کو ڈنر اس نے اپنے کمرے میں کیا . ڈنر کرنے کے بَعْد وہ تیار ہوکرعرفان کے بلائے ہوئے لوکیشن پر چلا گیا . وہاں افّی نے اک چوٹی سی پارٹی رکھی تھی . وہ پارٹی کا بہت شوقین تھا اور دن میں جو کچھ گھر میں ہوا تھا اس کے بَعْد سمر کوشور شرابے والی جگہ ہی سکون دیتی تھی .افی کا فارم ھاوس بہت بڑا تھا اور پارٹی بھی بڑی دھمال ہو رہی تھی . اسکی وائف بہت خوبصورت تھی اور وہ پوری پارٹی میں چمک رہی تھی . سمر وہاں اکیلا بیٹھا وائن کا گلاس ہاتھ میں پکڑے پارٹی میں آنے والے لوگوں کو دیکھ رہا تھا . ہر کسی کاچہرا یاسے 
کھلتا ہوا اور خوش نظر آتا . لیکن جب اسکی نظر جب چمکتے شیشے والی ٹیبل پر تواسے اپنا چہرہ برا لگنے لگا . ایک ہی گھونٹھ میں اس نے وائن کا گلاس پی لیا اور اگلا پیگ بھی بنا لیا . کچھ 5 سے 6پیگس وہ استر ح نگل گیا . نشہ بہت چڑھ چکا تھا . افّی نے سمر کی حالت دیکھی تو تب تک سمر بہت بری طرح بہک چکا تھا . بڑی مشکلوں سے اسےوہاں لےجایا گیا اور سمندر کے کنارے بٹھا دیا گیا . ٹھنڈی رات ٹھنڈ ریت ٹھنڈاپانی خاموش لہر .افی دیر تک وہاں بیٹھا رہا . سمر پاگلوں کی طرح کبھی ہنستا توکبھی روتا. اک وقت ایسا آیا جب اس نے اپنی جیب سے بٹوا نکالا اور اس میں سے پیسی نکال کر سمندر میں بہا دیئے . افی اسے روکتا رہا 

افّی : اوئے ! ! ! یہ کیا کر رہا ہے

سمر : یار ، اپنےباپ کی کمایٔ لٹا رہا ہوں . ان ممچلیوں کا بھلا ہو جائیگا 

افّی : یو ہیو تو گو ہوم

سمر : نہیں نہیں ! ! نو نو ! میں اگر گیا نا تو وہ میرا باپ کمینہ میری شادی بلال کی بیٹی سے کر میری سودا کردینگے ! میں انکا بیٹا نہیں میں تو ان کے لیے اس نوٹ کی طرح ہوں جہاں مرضی چاھے مجھے لگا دیتے ہیں . موم بھی نہیں سمجھتی مجھے . پِھر تم بتاؤ میں شادی کیسے کر سکتا ہوں ؟ 

افّی : سمر کنٹرول یور سیلف . تم بہت بہک چکے ہو 
سمر : آرے چور نا یار . ، میں تو نہیں بہکا یہ دنیا بہک گئی ہے . میری اندر دھڑکتی ہوئے دِل کو نکالے پر طلے ہوئی ہے . اِس کی جاگا نوٹ سے بنا ہوا دِل فٹ کرنا چاہتی ہے . جسے جب جی چاہا پانے فائدہ کے دوسرہوں کے لیے ان کے قدموں میں دال دیا

یفی کے موبائل پر کال آئی . سمر کی موم بہت پریشان تھی . تقریباً 20 منٹس بعد موم اس لوکیشن پوحوکنتی اور سمر کو 
گھر لے گئی . جیسے ہی گارگیٹ کے اندر داخل ہوئی تو سامنے سمر کے ڈیڈ کھڑے تھے ، ان چہراہ دیکھ کر تو یہی لگ رہا تھا کے آج انسانیت نام کی چیز اندر سے باغ چکی ہے . سمر لڑکھراتا ہوا گاری سے نکلا اس نے جب اپنے باپ کو دیکھا تو سیدھا کھڑا ہو گیا . آنکھیں کبھی کھل رہی تھی تو کبھی بند . موم نے اسے بازو سے پکڑا اور اندر لےگگیٔ . وہ لڑکھراتا ہوا بستر پر جا گرا اور اسکی آنکھ لگ گئی . سمر کو صبح ا ٹھنے میں کافی دشواری محسوس ہو رہا تھی . بہت بری حالت تھی کسی فقیر جیسی . موم لیمو پانی لیکر اس کے کمرے میں آئی . سمر کی حالت بہت بد بودار تھی

موم : اٹھو یہ پانی پیو اور جاکے فریش ہوجائے . یہ کیا حالت بنا راکھی ہے تمہیں اپنی ؟ 

سمر نے کوئی جواب نہ دیا . اس نے لیمو پانی پیا اور شاور لینے چلا گیا . شاور لینےکے بَعْد جب باہر آیا تو اسکے موبائل پر 
ملکہ کے کافی ساری مس کالز اور میسجس تھے

سمر : ہیلو جگر 

ملکہ : ہائو آر یو ؟ 

سمر : آئی ایم فائن . آر یو انجوائنگ تھے ویڈنگ 

ملکہ : ہاں آف کورس ، اٹس اوسم . تم سناؤ ہائو آر یو ڈوئنگ رائٹ نو 

سمر : آں . . ایکچولی آئی ایم ناٹ فیلنگ ویل

ملکہ : کچھ زیادہ نشہ تو نہیں کر لیا تم نے ؟ 

سمر : ہاں . . . بس 

ملکہ : کیابات ہے سام ، تم کچھ ٹینس لگ رہے ہو 

سمر : ہاں بس

ملکہ : واٹ ہیپنڈ ؟ 

سمر : کچھ نہیں یار بس ویسےہی
ملکہ : کم آن

سمر : اچھا جب تم آؤگی تب بتاؤنگا

ملکہ : اک بات کہوں ؟ 

سمر : ہاں بولو

ملکہ : آئی مس یو 

سمر کی بتیسی باہر آگئی . سمر نے ملکہ کے منہ یہ الفاظ سنے تو وہ بے حد خوش . کہیں نا کہیں اس کے دِل میں اِس بات کی تسلی تھی کےاسے محبت ہو گئی ہے . خیر . . یہ دن بھی آ نا تھا . سارا دن سمر اپنے کمرے میں رہا . نوکر اس کے کمرے میں كھانا پوحونچا دیتے وہ كھانا کھا کر یا تو ٹی وی دیکھتا یا پِھر سو جاتا . ظاہر ہے ابّا جان کا سامنا کرنا کسی جگری والے بندے کا کام ہوتا ہے ، لیکن سمر کا معاملا کچھ اور 
تھا . وہ ابّا جان کا سامنا بھی کرے گا اورمدتمیزی ، لیکن جتنی انسلٹ اسکی رات کو ہوئی اس کے بعد تو . . . خیر . . . رات بہت گہری تھی اور وہ اپنے کمرے کی بالکونی میں بیٹھا اس چاند کو دیکھ رہا تھا . چاند بھی کتنی عجیب چیز ہے ، . اک یہ ہے جو رات کو چامتا ہے اور تو اور تارے بھی اس کا ساتھ دیتے ہیں . دنیا والوں کو چاند بہت پسند ہے ، یہ ہر طرف سے اپنی محفل سجائے بیٹھا ہے . موج کرو چندا ماما ہم چلے اندر سونے . . . صبح بنٹی سمر کو جگانے اس کے گھر آیا . بنٹی نے جب سمر کی حالت دیکھی تو اسے بہت غصہ آیا اوراسے جی بھر کے سنائی 

بنٹی : ہم مر تو نہیں گئے تھے نا ! ! اسٹیوپڈ ! شرم تو نہیں آتی تجھے ؟ ! مجھے کال کر لیا ہوتاافی کے پاس چلا جاتا .اصترح مرے ہوئے کتے کی طرح تجھے کمرے میں بند رہنے کی کیازرورت تھی

سمر : یار ، بس بھی کردے بہت بول لیا تونے بھی 

بنٹی : میں تو بولونگا تو میرے بچپن کا دوست ہے ! ! تو ابھی چال میرے ساتھ

سمر : نہیں یار ، مجھے کہیں نہیں جانا

بنٹی نے سمر کو ہاتھ سے پکارے اور بڑی مشکلوں سےاسے کمرے سے نکالا . بنٹی نے سمر کو گاری میں بٹھایا . لیکن خود وہ بہانہ کر کے سمر کے گھر واپس چلا گیا

بنٹی : اوئے شٹ ! تیرے کمرے میں میرا موبائل رہ گیا ہے میں لے کے آیا

سمر : کسی نوکر کو کہہ دے

بنٹی : نہیں یار آئی ایم جسٹ بیک ان 2 منٹس یار 

بنٹی موبائل کے بہانے سمر کی موم کے پاس گیا . وہ گارڈن میں بیٹھی کسی سہیلی کے ساتھ فون پر مصروف تھی اور کسی ہیوی 
ایکسپینسف ڈائیمنڈ رنگ کے بڑے میں بات ہو رہی تھی 
موم : اچھا . . . کتنے کیروٹ کی ؟ . . . ۲ لاکھ ؟ ؟ . . وائو . . . اچھا

موم کی نظر بنٹی پر . انھوں نے بنٹی کو بیٹھنے کا اشارہ کیا . فون بند کرنے کے بَعْد وہ بنٹی سے مخاطب ہوئی 

موم : ہاں بیٹا کیسے ہو ؟ میں نے سنا ہے تمھارا منگنی ہوگئی اور تم نے ہمیں بلایا ہی نہیں 

بنٹی : ہا ہا میں نے تو اپنے پیڑینٹس کو بھی نہیں بلایا تھا

موم : حاحا . . . اچھا کیسے ہو ؟کہاں ہو آج کل 

بنٹی : آج کل ، . . آپکے بیٹے کے موڈ ٹھیک کرنے کے چکر میں ہوں . کیا بات ہے آپ اسکا موڈ سیٹ کیوں نہیں رہنے دیتے 

موم : کیا مطلب ہے تمہارا ؟ 

بنٹی : دیکھیے آنٹی ، سمر میرے بچپن کا دوست ہے اینڈ مجھے وہ بہت پیارا ہے . پلیز آپ اسے اس کے حَال پر چھوڑدے . اس پر شادی کے لیے اتنا زورنہ دے . وہ بچہ نہیں ہے کرلےگا شادی لیکن جہاں آپ اسکی شادی کروانہ وہاں وہ کبھی خوش نہیں رہیگا

موم : دیکھو بنٹی میں جانتی ہوں کے تمہیں سمر کی بہت فکر ہے لیکن ہم اس کے پیڑینٹس ہم سے بہتر اسکا بھلا کون کر سکتا ہے ؟ میں نے اور سمر کے ڈیڈ فیصلہ کر لیا ہے . سمر کو منانا تمہارا کام ہے 

بنٹی : آنٹی ، ! میں ایسا نہیں کرونگا فور شیور . میں اپنے دوست کے ساتھ ہوں . پلیز آنٹی اپنے سمر کی اتنی
 خواہشیں پوری کی ہے یہ اک اور کردینگی تو کیا فرق پر جائیگا ؟ 

موم : بات خواہشوں کی نہیں ہے بات اسٹیٹس کی ہے . ہمارا اسٹیٹس جتنا اونچا ھوگا اتنی عزت ملے گی 

بنٹی : کبھی کبھی یہ اونچا اسٹیٹس رشتوں پر بہت بھاری پڑ جاتا . یہ نہ ہو کے آپ اپنے بیٹے کو کھو بیٹے . ہیو آ گڈ ڈے

سمر کی موم نے جب یہ الفاظ بنٹی کے منہ سے سنے تو وہ خاموش ہوگئی . وہ بہت اچھی طرح جانتی تھی کے بنٹی ٹھیک کہہ رہا ہے . لیکن وہ بھی مجبور تھی . اُدھر ان کے ہسبنڈ نے انکا جینا حرام کیا ہوا تھا کے وہ اپنے بیٹے کو سمجھائے . اور جب بیٹا بات نہیں مانتا تھا تو وہ سوشل ورک یا کٹی پارٹی میں مصروف ہوجاتی . دیکھا جائے تو ان تینوں میں اب تک کی کہانی میں سکون نام کی کوئی چیز نہیں ملی . ڈیڈ کو صرف پیسہ اور اپنے رتبے سے پیار تھا . یہ امیر ھونا اور دنیا دار ھونا بڑا ہی مشکل کام ہے . ذرا سی بات اور لائف برباد . موم اپنی کمرے بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی کے اچانک ان کے سامنے اک اسلامک چینل آیا . وہ اِس چینل کو دیکھنے لگی . اس میں اک مولانا صاحب خدا سے محبت 
کےبارے میں بیٹ کر رہا تھا

مولانا : خدا سے جتنا مانگو گی جتنی محبت کروگے اتنا سکون ملے گا

ڈیڈ جب اندر آئے تو انہوں نے موم کو اِس حال بیٹھا دیکھ کر غصہ کرنا شروع کر دیا

ڈیڈ : واٹ دی ھیل آر یو واچنگ ؟ 

موم : کچھ نہیں

ڈیڈ : تمہیں اِن چیزوں میں کب سے دلچسبی ہونے لگی ؟

موم : آر ےمیں نے جان بوجھ کے تو نہیں لگایا . بس چینل لگا ہوا تھا میرا دھیان کہیں اور چلا گیا

ڈیڈ : دھیان کہیں اور چلا گیا . . . جو کام تمھارے ذمہ لگایا ہے اس پر دھیان ہے تمہارا کے نہیں 

موم : ہے

موم بہت یزار تھی . وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی . گاری لی اور اپنی سہی رابیہ کے گھر چلی گئی . رابیہ موم کی بچپن کی دوست . تھی . جب بھی ان کو کوئی پریشانی ہوتی تھی وہ رابیہ سے جا کر ملتی . ڈفینس میں کھڑا آلیشان بینگلوں میں سے اک بنگلہ ربیہ کا بھی تھا . رابیہ نے جب موم کی حالت دیکھی تو وہ سمجھ گئی کے گھر میں کوئی بات ہوئی ہے . رابیہ آنٹی کو موم کو ریسٹ کرنے کو کہا

رابیہ : تم تھوڑا ریسٹ کرلو فریحہ 

موم : کیسے کروں ، میں کیا کروں میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا . اُدھر سمر کے ڈیڈ کوئی بات ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں اور ادھر سمر کی بدتمیزیان کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی

رابیہ : سمر جانبعجھ کر ایسیبد تمیزی نہیں کر رہا اور یہ بات تم بہت اچھی طرح جانتی ہو 

فریحہ : ہاں جانتی ہوں اور میں 
اپنے بیٹے کا ساتھ دینا چاہتی ہوں 

رابیہ : چاہتی ہو کیا مطلب تم اسی کا ساتھ دو اس طرہ زبردستی کے رشتے نہیں ہوتے ! ! اینڈ سپورٹ یور سن

فریحہ : سمر ہم دونوں سے بہت دور جا چکا ہے رابیہ . . . وہ مجھے بھی اپنا دشمن سمجھنے لگا ہے

رابیہ : میں بات کروں گی سمر سے ، تم پریشا ن نہ ہو . اب وہ ایسا نہیں کرے گا . وہ بالکل ٹھیک کہتا یہ شادی نہیں ایک ڈیل ہے ، ، انسانوں کی زنگیوں کے ساتھ ڈیل نہیں کرتے خاص طورپر اپنے بچوں کے ساتھ . اچھا سنو ؟ تم کبھی مسز بلال اور انکی بیٹی سے ملی ہو ؟ وہ کیا کہتے ہیں ؟ 

فریحہ : نہیں ، جب ان کے پاس وقت ھوگا تو ملا دینگے

رابیہ : تو تم اِس شادی کے لیے رازی کیسے ہوگئی بنا انہیں دیکھے اور بنا انہیں جانے

فریحہ : میں تو اِس شادی کے لیے پہلے دن سے رازی نہیں تھی لیکن تم توطوقیر کو جانتی ہو
رابیہ : ہاں ، ، ، اچھا چلو تم فکرنہ کرو تم کسی بہانے سمر کو میرے پاس بھیجھو . میںاسے سمجھا دونگی بات کروں گی

 اور تم بھی کنٹرول کرو جب بھی طوقیر اِس رشتے کو لیکر کچھ کہے تو کچھ مت بولو خاموش رہو . بعض دفعہ دوسروں کے لیے خاموشی ہی بہت بڑا جواب ہوتی ہے 

موم اور رابیہ آنٹی صرف بچپن کی سہیلیان ہی نہیں تھی بلکہ وہ دونوں بہنوں کی طرح تھی . موم کو جب بھی کوئی پروبلم ہوتی پوری دنیا میں انہیں صرف رابیہ آنٹی ہی نظر آتی . چاھے موم جتنی مرضی کٹی پارٹیز اور سوشل ورک میں اپنےسہلیوں کے ساتھ گھومتی بات کہیں نہ کہیں وہ موحافزات انہیں صرف رابیہ سے ہی ملتے . رابیہ آنٹی نے سمر کو فون ملایا اور ڈنر پر انوائٹ کیا . سمر رابیہ آنٹی کی 
بتای ہوئی جاگہ پر ڈنر پر چلا گیا . رابیہ سمر کی صرف آنٹی ہی نہیں بلکہ اک بہت اچھی دوست بھی تھی . شام بہت خوب تھی . سوراج ڈھل رہا تھا اور سمر اپنا فیورٹ کوکٹیل کی چسکی لگا رہا تھا . رابیہ آنٹی کے ساتھ بیٹھ کر سمر اکثر اپنی دِل کی باتیں کرتا تھا . ان دونوں کی گفتگو کچھ اصترح کی ہوتی تھی جیسے تو بیسٹ فرینڈز کی ہوتی ہے . بھلا سمر کی دوستی بنٹی اور افی کے ساتھ ہے لیکن رابیہ آنٹی کے ساتھ دوستی ایسی ہے جیسی اپنے بیٹے کے ساتھ ہوتی ہے . کاش کے اسکی اصترہ کی دوستی اپنی ماں کے ساتھ بھی ہوتی ؟ 

رابیہ آنٹی : کیابات ہے بہت پریشان لگ رہے ہو ؟ 

سمر : کچھ نہیں بڈی ، بس ویسے ہی

رابیہ : کچھ تو ہے ، تمہاری موم آئی تھی میرے پاس تمہاری شکایت کرنے 

سمر : ہاں ، ان کو تو میں لگتا ہی 
برا ہوں 

رابیہ : کوئی اولاد بھی اپنی ماں کو بری لگتی ہے ؟ کتنی فضول بات کرتے ہو تم ؟ 

سمر : تو پھر ان کو میرے سے شکایت کیوں ہیں ؟ 

رابیہ : پوری بات تو تم سنتے ہی نہیں . . . انہوں نے تمہاری کوئی ایسی ویسی شکایت نہیں کی کے تم بھڑک اٹھو . اصل میں . . وہ تمھارے لیے بہت پریشان ہیں 

سمر : کم آن یار ، ڈیڈ کے سامنے میری انسلٹ کرنے کی کوئی قصر نہیں چھوڑتی اور اب آپ کہہ رہی ہیں کے وہ میرے لیے پریشان ہے آر یو کڈنگ میں ؟ 

رابیہ آنٹی : سن تو پوری بات ! بیٹا تمہارا موم واقعی بہت پریشان ہیں . اور یہ جوطوقیر کے سامنے بنتی ہے نا یہ بھی اسکی اک مجبوری ہے . وہ نہیں چاہتی کے تمھارے شادی مسٹر بلال کی بیٹی کے ساتھ ہو لیکن تمھارے ڈیڈ کسی کو 
سانس لینے دے تو تب نا

سمر : آپ کیا بول رہی ہیں میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ! ڈیڈ کو تو اپنے کاروبار سے فرصت نہیں انہوں نے ہماری کیا بات سننی ہے 

رابیہ : یہی بات ! ! تمہاری موم یہ جوکٹی پارٹی اور سوشل ورک کرتی ہےنہ یہ تمھارے ابّا جان کی وجہ سے کرتی ہیں . اور تم تو ہر وقت افّی اور بنٹی کے ساتھ مصروف رہتے ہو ، تو بتاؤ و کہاں جائے ؟ 

سمر : تو آپ بتائے میں کیا کروں ؟ وہ دونوں میرے بچپن کے دوست ہیں . . . میں انہیں کیسے چور سکتا ہوں 

رابیہ آنٹی : تجھے انہوں نے چھوڑنے کو نہیں بول رہی تم جسٹ اک باڑ سنجیدگی سے اپنی موم کے چہرے کی طرف دیکھلو . اگر تمھارے پاس عقل نام کی کوئی چیز ھوگی نا تو سمجھ جاؤگے واٹ آئی ایم ٹرائینگ تو سے

سمر : اُف

رابیہ : تیری موم تیرا کبھی برا نہیں چاہتی . یہ تیری بھول ہے لڑکے ! بس وہ اتنی کمزور ہیں کے انہیں مجبوراً اپنے ہسبنڈ کا ساتھ دینا پڑتا ورنہ تیری زندگی برباد ہوتے ہوئے وہ کیوں د یکھینگی بھلا ؟ 

سمر : تو پِھر موم ایکشن کیوں نہیں لیتی ؟ مجھے ہی کیوں پاپا کے سامنے ذلیل کرتی رہتی ہیں 

رابیہ : تجھے اتنا زور کا تھپڑ پڑنا ہے نا میرے ہاتھ کا یہ پیور شہرمیں گونجعگی اسکی آواز

سمر : آنٹی

رابیہ : وہ تجھے ذلیل نہیں کرتی . مجبور ہے وہ . . . کبھی کبھی خاوند کےآگے جھکنا پڑتا ہے . تو اگر اپنی موم
 سے پیار کرے گا تواسے حوصلہ ملے گا آئی سمجھ ؟ 

سمر : تو پِھر مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ 

رابیہ : اپنی موم کو ٹائم دے ، ان کے ساتھ باہر جا انکی پسند باتیں کر اس کے ساتھ .اصترہح بنٹی اور افی کے ساتھ اوآرہ گردی کرنے سے اچھا اپنی موم کے سوشل ورک میں جاکے ہاتھ بتا . اچھے کام کر . یونیورسٹی ختم کرنے کے بَعْد تو تو بس

سمر : آنٹی یو نو کے مجھے موم کے سوشل ورک سے کوئی دلچسبی نہیں ہے

رابیہ : ہاں میں جانتی ہوں لیکن اگر تاسےسمجھنا چاہتا تو تجھے یہ سب کرنا پڑے گا میری جان . بس اسی
 بہانے تو ان کے ساتھ رہ تاکے انکا بھی حوصلہ برھے  

رابیہ آنٹی سمر نے کافی دیر تک بیٹھ کر موم کی بارے میں باتیں کی . سمر کو ان سب باتوں کا علم نہیں تھا . اسے اِس بات کا بے حد افسوس تھا کے اس نے اپنی موم کو بھی غلط سمجھا . لیکن اِس میں 
اسکا بھی کوئی قصور ہی نہیں کیوں کے گھر میں اکثر استرح کی سچویشن کرئیٹ ہو جاتی کے جس سے سمر کو یہ لگتا کے کوئی بھی اسکا اپنا نہیں ہے . بنٹی کی منگنی ہو چکی تھی اورافّی کی شادی . سمر ابھی تک اِس جدو جہدمیں لگا ہوا تھا کے ملکہ اس سے محبت کرتی ہے کے نہیں . سمر سچی محبت کا بھوکھا تھا . ملکہ کی باتوں سے تو اسے محبت کی کبھی کبھی خوشبو آتی تھی . خیر . . . رات کو جب سمر پانی گر میں بیٹھا تو اس نے اپنے موبائل پر نظر ماری . کسی کا کوئی میسج یا کوئی مس کال نہیں تھی . گاری اسٹارٹ کرنے سے پہلے اس نے سوچا كے کیوں نا موم کو فون کر کے پوچھا جائے کے وہ کہاں ہے ؟ 

جاری ہے ۔۔۔