┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_05
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے کامران کو ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔ اسکرین پر موجود اسکور میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہورہا تھا۔ شاید اسکی وجہ وہ مشکل ٹریک تھا جس پر کامران کو گاڑی ڈرائیو کرنی تھی ۔ سالار لاؤنج کے صوفوں میں سے ایک صوفے پر بیٹھا اپنی نوٹ بک پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا ، مگر وقتا" فوقتا" نظر اٹھا کر ٹی وی اسکرین کو بھی دیکھ رہا تھا جہاں کامران اپنی جدوجہد میں مصروف تھا۔ ٹھیک آدھ گھنٹہ بعد اس نے نوٹ بک بند کرکے سامنے پڑی میز پر رکھ دی پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائی روکی۔ دونوں ٹانگیں سامنے پڑی میز پر رکھ کر اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں سر کے پیچھے باندھے وہ کچھ دیر اسکرین کو دیکھتا رہا جہاں کامران اپنے تمام چانسز ضائع کرنے کے بعد ایک بار پھر نیا گیم کھیلنے کی تیاری کر رہا تھا ۔ 
کیا پرابلم ہے کامران ؟ سالار نے کامران کو مخاطب کیا 
ایسے ہی ۔۔۔۔۔۔ نیا گیم لے کر آیا ہوں مگر اسکور کرنے میں بہت مشکل ہو رہی ہے ۔ کامران نے بے زاری سے کہا 
اچھا مجھے دکھاؤ ۔۔۔۔۔ اس نے صوفے سے اٹھ کر ریموٹ کنٹرول اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ 
کامران نے دیکھا ۔ پہلے بیس سیکنڈ میں ہی سالار اس جس اسپیڈ پر دوڑا رہا تھا اس اسپیڈ پر کامران ابھی تک نہیں دوڑا پایا تھا ۔ جو ٹریک اسے بہت مشکل لگ رہا تھا وہ سالار کے سامنے ایک بچکانہ چیز محسوس ہو رہا تھا ۔ ایک منٹ بعد وہ جس اسپیڈ پر گاڑی دوڑا رہا تھا اس اسپیڈ پرکامران کے لیے اس پر نظریں جمانا مشکل ہوگیا جب کہ سالار اس اسپیڈ پر بھی گاڑی کو مکمل طور پر کنٹرول کئے ہوئے تھا ۔ 
تین منٹ بعد کامران نے پہلی بار گاڑی کو ڈگمگاتے اور پھر ٹریک سے اتر کر ایک دھماکے سے تباہ ہوتے ہوئے دیکھا ۔ کامران نے مسکراتے ہوئے مڑ کر سالار کی طرف دیکھا ۔ گاڑی کیوں تباہ ہوئی تھی وہ جان گیا تھا ۔ ریموٹ اب سالار کے ہاتھ کی بجائے میز پر پڑا تھا اور وہ اپنی نوٹ بک اٹھائے کھڑا ہو رہا تھا ۔ کامران نے سر اٹھا کر اسے دیکھا 
بہت بورنگ گیم ہے ۔ سالار نے تبصرہ کیا اور اسکی ٹآنگوں کو پھلانگ کر لاؤنج سے باہر نکل گیا ۔ کامران ہونٹ بھینچے سات ہندسوں پر مبنی اس اسکور کو دیکھ رہا تھا جو اسکرین کے ایک کونے میں جگمگا رہا تھا ، کچھ نہ سمجھ میں آنے والے انداز میں اس نے بیرونی دروازے کو دیکھا جس سے وہ غائب ہوا تھا ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
وہ دونوں ایک بار پھر خاموش تھے ۔ اسجد کو الجھن ہونے لگی ۔ امامہ اتنی کم گو نہیں تھی جتنی وہ اس کے سامنے ہو جاتی تھی۔ پچھلے آدھے گھنٹے میں اس نے گنتی کے لفظ بولے تھے 
وہ اسے بچپن سے جانتا تھا۔ وہ بہت خوش مزاج تھی۔ ان دونوں کی نسبت ٹھہرائے جانے کے بعد بھی ابتدائی سالوں میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ اسجد کو اس سے بات کرکے خوشی محسوس ہوتی تھی۔ وہ بلا کی حاضر جواب تھی ، مگر پچھلے کچھ سالوں میں وہ یک دم بدل گئی تھی اور میڈیکل کالج میں جاکر تو یہ تبدیلی اور بھی زیادہ محسوس ہونے لگی تھی ۔ اسجد کو بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا جیسے اس سے بات کرتے ہوئے وہ حد درجہ محتاط رہتی ہے ، کبھی وہ الجھی ہوئی سی محسوس ہوتی اور کبھی اسے اس کے لہجے میں عجیب سی سرد مہری محسوس ہوتی ۔ اسے لگتا وہ جلد از جلد اس سے چھٹکارا پاکر اس کے پاس سے اٹھ کر چلی جانا چاہتی ہے ۔ 
اس وقت بھی وہ ایسا ہی محسوس کر رہا تھا 
میں کئی بار سوچتا ہوں کہ میں خوامخواہ ہی تمہارے لیے یہاں آنے کا تردد کرتا ہوں ۔۔۔۔ تمہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہوگا کہ میں آؤں یا نہ آؤں ۔ اسجد نے ایک گہری سانس لے کر کہا ۔ وہ اس کے بالمقابل لان چیئر پر بیٹھی دور باونڈی وال پر لگی بیل کو گھور رہی تھی۔ اسجد کی شکایت پر اس نے گردن ہائے بغیر اپنی نظریں بیل سے ہٹا کراسجد پر مرکوز کردیں ۔ اسجد نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا مگر وہ خاموش رہی تو اس نے لفظوں میں کچھ ردوبدل کے ساتھ اپنا سوال دہرایا۔ 
تمہیں میرے نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا امامہ ۔۔۔۔ کیوں ٹھیک کہہ رہا ہوں میں ؟ 
اب میں کیا کہہ سکتی ہوں اس پر ؟ 
تم کم از کم انکار تو کرسکتی ہو ۔ میری بات کو جھٹلا تو سکتی ہو کہ ایسی بات نہیں ہے ۔ میں غلط سوچ رہا ہوں اور ۔۔۔۔۔۔ ؟ 
ایسی بات نہیں ہے ۔ آپ غلط سوچ رہے ہیں ۔ امامہ نے اسکی بات کاٹ کرکہا ۔ اس کا لہجہ اب بھی اتنا ہی ٹھنڈا اور چہرہ اتنا ہی بے تاثر تھا جتنا پہلے تھا ، اسجد ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا ۔ 
ہاں میری دعا اور خواہش تو یہی ہے کہ ایسا نہ ہو اور میں واقعی غلط سوچ رہا ہوں مگر تم سے بات کرتے ہوئے میں ہر بار ایسا ہی محسوس کرتا ہوں ۔ 
کس بات سے آپ ایسا محسوس کرتے ہیں ۔ اس بار پہلی بار اسجد کو اسکی آواز میں کچھ ناراضی جھلکتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ 
بہت سی باتوں سے ۔۔۔۔۔ تم میری کسی بات کا ڈھنگ سے جواب ہی نہیں دیتیں ۔ 
حالانکہ میں آپ کی ہر بات کا ڈھنک سے جواب دینے کی بھرپور کوشش کرتی ہوں ۔۔۔۔۔ لیکن اب اگر آپ کو میرے جواب پسند نہ آئیں تو میں کیا کرسکتی ہوں ۔ 
اسجد کو اس بار بات کرتے ہوئے وہ کچھ مزید خفا محسوس ہوئی ۔ 
میں نے کب کہا کہ مجھے تمہارے جواب پسند نہیں آئے ۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ میری ہر بات کے جواب میں تمہارے پاس ۔ ہاں اور نہیں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔ بعض دفعہ تو مجھے لگتا ہے میں اپنے آپ سے باتیں کررہا ہوں ۔ 
اگر آپ مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ تم ٹھیک ہو تو میں اس کا جواب ہاں یا نہیں میں ہی دوں گی ۔ ہاں اور نہیں کے علاوہ اس سوال کا جواب کسی تقریر سے دیا جاسکتا ہے تو آپ مجھے وہ دے دیں میں وہ کردوں گی ۔ وہ بالکل سنجیدہ تھی ۔ 
ہاں اور نہیں کے ساتھ بھی تو کچھ کہا جاسکتا ہے ۔ ۔۔۔۔ اور کچھ نہیں تو تم جوابا" میرا حال ہی پوچھ سکتی ہو ۔ 
میں آپکا کیا حال پوچھوں ۔ ظاہر ہے اگر آپ میرے گھر آئےہیں ، میرے سامنے بیٹھے مجھ سے باتیں کررہے ہیں تو اسکا واضح مطلب تو یہی بنتا ہے کہ آپ ٹھیک ہیں ورنہ اس وقت آپ اپنے گھر اپنے بستر پر پڑے ہوتے ۔ 
یہ فارمیلٹی ہوتی ہے امامہ ابھی
 جاری ھے. 
.............. 
جاری ہے......