┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد
قسط_نمبر_40
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے گاڑی ان کے قریب لے جا کر روک دی۔خاتون کی سفید رنگت اس وقت سرخ تھی اور سانس پھولا ہوا تھا اور شاید وہ اپنا سانس ٹھیک کرنے کے لئے ہی سڑک کنارے بیٹھی تھیں۔
السلام علیکم اماں! کیا مسئلہ ہے ، آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں؟"
سالار نے اپنے سن گلاسز اُتارتے ہوئے کھڑکی سے سر نکال کر پوچھا۔
"بیٹا! مجھے رکشہ نہیں مل رہا۔"
سالار ان کی بات پر حیران ہوا۔وہ مین روڈ نہیں تھی۔ایک رہائشی علاقے کی ہائی روڈ تھی اور وہاں رکشہ ملنے کا امکان نہیں تھا۔
"اماں جی! یہاں سے تو آپ کو رکشہ مل بھی نہیں سکتا۔آپ کو جانا کہاں ہے؟"
اس خاتون نے اسے اندرون شہر کے ایک علاقے کا نام بتایا۔سالار کے لئے بالکل ممکن نہیں تھا کہ وہ انہیں وہاں چھوڑ آتا۔
"آپ میرے ساتھ آ جائیں۔میں آپ کو مین روڈ پر چھوڑ دیتا ہوں۔وہاں سے آپ کو رکشہ مل جائے گا۔"
سالار نے پچھلے دروازے کا لاک کھولا اور پھر اپنی سیٹ سے اتر گیا مگر اماں جی اسے خاصی متامل نظر آئیں۔وہ ان کے اندیشوں کو بھانپ گیا۔
"اماں جی! ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں شریف آدمی ہوں۔آپ کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔میں صرف آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں ، کیونکہ اس سڑک سے تو آپ کو رکشہ ملے گا نہیں اور اس وقت سڑک سنسان ہے ، آپ نے زیور پہنا ہوا ہے ، کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے آپ کو۔"
سالار نے نرمی سے ان کے اندیشے دور کرنے کی کوشش کی۔خاتون نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے اپنی چوڑیوں کو دیکھا اور پھر سالار سے کہا۔
"لو۔۔۔۔۔یہ سارا زیور تو نقلی ہے۔"
"چلیں ، یہ تو بہت اچھی بات ہے مگر کوئی بھی غلط فہمی کا شکار ہو سکتا ہے۔کوئی آپ سے یہ تھوڑی پوچھے گا کہ یہ زیور اصلی ہے یا نقلی۔"
سالار نے ان کے جھوٹ کا پردہ رکھتے ہوئے کہا۔
وہ اب سوچ میں پڑ گئیں۔سالار کو دیر ہو رہی تھی۔
"ٹھیک ہے اماں جی! آپ اگر مناسب نہیں۔۔۔۔۔"
اس نے واپس اپنی گاڑی کی طرف قدم بڑھائے تو اماں جی فوراً بول اٹھیں۔
"نہیں ، نہیں۔میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ۔پہلے ہی ٹانگیں ٹوٹ رہی ہیں چل چل کے۔"
وہ ٹانگوں پر زور دیتے ہوئے اُٹھنے کی کوشش کرنے لگیں۔
سالار نے ان کا بازو پکڑ کر انہیں اُٹھایا۔پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر انہیں اندر بٹھا دیا۔
ہائی روڈ کو تیزی سے کراس کر کے وہ مین روڈ پر آ گیا۔اب وہ کسی خالہ رکشہ کی تلاش میں تھا مگر اسے رکشہ نظر نہیں آیا۔وہ آہستہ آہستہ گاڑی چلاتے ہوئے کسی خالی رکشے کی تلاش میں ٹریفک پر نظریں دوڑانے لگا۔
"نام کیا ہے بیٹا تمہارا؟"
"سالار۔"
"سلار؟"انہوں نے جیسے تصدیق چاہی۔وہ بےاختیار مسکرایا۔زندگی میں پہلی بار اس نے اپنے نام کو بگڑتے سنا تھا۔تصحیح کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔وہ پنجابی خاتون تھیں اور اس سے بمشکل اردو میں بات کر رہی تھیں۔
"جی۔"سالار نے تصدیق کی۔
"یہ کیا نام ہوا ، مطلب کیا ہے اس کا؟"انہوں نے یک دم دلچسپی لی۔
سالار نے انہیں اپنے نام کا مطلب اس بار پنجابی میں سمجھایا۔اماں جی کو اس کے پنجابی بولنے پر خاصی خوشی ہوئی اور اب وہ پنجابی میں گفتگو کرنے لگیں۔
سالار کے نام کا مطلب پوچھنے کے بعد انہوں نے کہا۔
"میری بڑی بہو کے ہاں بیٹا ہوا ہے۔"
وہ حیران ہوا اسے توقع نہیں تھی کہ نام کا مطلب جاننے کے بعد ان کا اگلا جملہ یہ ہو گا۔
"جی۔۔۔۔۔مبارک ہو۔"فوری طور پر اسے یہی سوجھا۔
"خیر مبارک۔"
انہوں نے خاصی مسرت سے اس کی مبارک باد وصول کی۔
"میری بہو کا فون آیا تھا ، پوچھ رہی تھی کہ امی! آپ نام بتائیں۔میں تمہارا نام دے دوں؟"
اس نے بیک ویو مرر سے کچھ حیران ہو کر انہیں دیکھا۔
"دے دیں۔"
"چلو یہ مسئلہ تو حل ہوا۔"
اماں جی اب اطمینان سے عینک اُتار کر اپنی بڑی سی چادر کے پلو سے اس کے شیشے صاف کرنے لگیں۔سالار کو ابھی تک کوئی رکشہ نظر نہیں آیا تھا۔
"عمر کتنی ہے تمہاری؟"انہوں نے گفتگو کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں سے توڑا تھا۔
"تیس سال۔"
"شادی شدہ ہو؟"
سالار سوچ میں پڑ گیا۔وہ ہاں کہنا چاہتا تھا مگر اس کا خیال تھا کہ ہاں کی صورت میں سوالات کا سلسلہ مزید دراز ہو جائے گا اس لئے بہتر یہی تھا کہ انکار کر دے اور اس کا یہ اندازہ اس دن کی سب سے فاش غلطی ثابت ہوا۔
"نہیں۔"
"شادی کیوں نہیں کی؟"
"بس ایسے ہی۔خیال نہیں آیا۔"اس نے جھوٹ بولا۔
"اچھا۔"
کچھ دیر خاموشی رہی۔سالار دعائیں کرتا رہا کہ اسے رکشہ جلدی مل جائے۔اسے دیر ہو رہی تھی۔
"کیا کرتے ہو تم؟"
"میں بینک میں کام کرتا ہوں۔"
"کیا کام کرتے ہو؟"
سالار نے اپنا عہدہ بتایا۔اسے اندازہ تھا کہ اماں جی کے اوپر سے گزرے گا مگر وہ اس وقت ہکا بکا رہ گیا جب انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا۔
"یہ افسر ہوتا ہے نا؟"
وہ بےاختیار ہنسا۔اس سے زیادہ اچھی وضاحت کوئی اس کے کام کی نہیں دے سکتا تھا۔
"جی ا ماں جی!"افسر" ہوتا ہے۔"وہ محفوظ ہوا۔
"کتنا پڑھے ہو تم؟"
"سولہ جماعتیں۔"
اس بار سالار نے اماں جی کا فارمولا استعمال کرتے ہوئے اپنی تعلیم کو آسان لفظوں میں پیش کیا۔اماں جی کا جواب اس بار بھی حیران کن تھا۔
"یہ کیا بات ہوئی سولہ جماعتیں۔۔۔۔۔؟ایم بی اے کیا ہے یا ایم اے اکنامکس؟"
سالار نے بےاختیار پلٹ کر اماں جی کی کو دیکھا۔وہ اپنی عینک کے شیشوں سے اسے گھور رہی تھیں۔
"اماں جی! آپ کو پتا ہے ایم بی اے کیا ہوتا ہے یا ایم اے اکنامکس کیا ہوتا ہے؟"وہ واقعی حیران تھا۔
"لو مجھے نہیں پتا ہو گا؟میرے بڑے بیٹے نے پہلے ایم اے اکنامکس کیا ادھر پاکستان سے پھر انگلینڈ جا کر اس نے ایم بی اے کیا۔وہ بھی بینک میں ہی کام کرتا ہے مگر ادھر انگلینڈ میں۔اسی کا تو بیٹا ہوا ہے۔"
سالار نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے گردن واپس موڑ لی۔
"تو پھر تم نے بتایا نہیں؟"
"کیا؟"
سالار کو فوری طور پر یاد نہیں آیا کہ انہوں نے کیا پوچھا تھا۔
"اپنی تعلیم کے بارے میں؟"
"میں نے ایم بی اے کیا ہے۔"
"کہاں سے؟"
"امریکہ سے۔"
"اچھا۔۔۔۔ماں باپ ہیں تمہارے؟"
"جی۔"
"کتنے بہن بھائی ہیں؟"سوالات کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا تھا۔
"پانچ۔"سالار کو کوئی جائے فرار نظر نہیں آ رہی تھی۔
"کتنی بہنیں اور کتنے بھائی؟"
"ایک بہن اور چار بھائی۔"
"شادیاں کتنوں کی ہوئی ہیں؟"
"میرے علاوہ سب کی۔"
"تم سب سے چھوٹے ہو؟"
"نہیں ، چوتھے نمبر پر ہوں۔ایک بھائی چھوٹا ہے۔"
سالار کو اب پہلی بار اپنے "سوشل ورک" پر پچھتاوا ہونے لگا۔
"اس کی بھی شادی ہو گئی؟"
"جی۔"
"تو پھر تم نے شادی کیوں نہیں کی؟کوئی محبت کا چکر تو نہیں؟"
اس بار سالار کے پیروں کے نیچے سے حقیقت میں زمین کھسک گئی۔وہ ان کی قیافہ شناسی کا قائل ہونے لگا۔
"اماں جی! رکشہ نہیں مل رہا۔آپ مجھے ایڈریس بتا دیں ، میں آپ کو خود چھوڑ آتا ہوں۔"سالار نے ان کے سوال کا جواب گول کر دیا۔
دیر تو اسے پہلے ہی ہو چکی تھی اور رکشے کا ابھی بھی کہیں نام و نشان نہیں تھا اور وہ اس بوڑھی خاتون کو کہیں سڑک پر بھی کھڑا نہیں کر سکتا تھا۔
اماں جی نے اسے پتا بتایا۔
سالار کی سمجھ میں نہیں آیا۔ایک چوک میں کھڑے ٹریفک کانسٹیبل کو اس نے وہ پتا دوہرا کر مدد کرنے کے لئے کہا۔کانسٹیبل نے اسے علاقے کا رستہ سمجھایا۔
سالار نے دوبارہ گاڑی چلانا شروع کی۔
"تو پھر تم نے مجھے بتایا نہیں کہ کہیں محبت کا چکر تو نہیں تھا؟"
سالار کا دل چاہا کہیں ڈوب کر مر جائے۔وہ خاتون ابھی تک اپنا سوال نہیں بھولی تھیں جبکہ وہ صرف اس سوال کے جواب سے بچنے کے لئے انہیں گھر چھوڑنے پر تیار ہوا تھا۔
"نہیں اماں جی! ایسی کوئی بات نہیں۔"
اس نے اس بار سنجیدگی سے کہا۔
"الحمدللہ۔"وہ اماں جی کی اس "الحمدللہ" کا سیاق و سباق سمجھ نہیں پایا تھا اور اس نے اس کا تردد بھی نہیں کیا۔
اماں جی اب اس کے ماں باپ کے بارے میں کرید کرید کر معلومات حاصل کرنے کی کوشش فرما رہی تھیں۔سالار واقعی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔
سب سے بڑی گڑبڑ اس وقت ہوئی جب وہ اماں جی کے بتائے ہوئے علاقے میں پہنچا اور اس نے اماں جی سے مطلوبہ گلی کی طرف رہنمائی کرنے کی درخواست فرمائی اور اماں جی نے کمال اطمینان سے کہا۔
"اب یہ تو مجھے پتہ ہے کہ اس علاقے میں گھر ہے مگر پتہ مجھے معلوم نہیں۔"
وہ بھونچکا رہ گیا۔
"اماں جی! تو گھر کیسے پہنچاؤں میں آپ کو۔پتے کے بغیر اس علاقے میں آپ کو کہاں ڈراپ کروں؟"
وہ اپنے گھر پر لکھا نمبر اور نام بتانے لگیں۔
"نہیں اماں جی! آپ مجھے گلی کا نام بتائیں۔"
وہ گلی کے نام کی بجائے نشانیاں بتانے لگیں۔
"حلوائی کی ایک دکان ہے گلی کے کونے میں۔۔۔۔۔بہت کھلی گلی ہے۔۔۔۔۔پرویز صاحب کا گھر بھی وہیں ہے ، جن کے بیٹے نے جرمنی میں شادی کی ہے پچھلے ہفتے۔۔۔۔۔پہلی بیوی اس کی ادھر ہی ہے ہمارے محلے میں۔۔۔۔۔شادی کی اطلاع ملنے پر بےچاری نے رو رو کر محلہ سر پر اُٹھا لیا۔"وہ نشانیاں بتاتے بتاتے کہیں اور نکل گئیں۔
سالار نے سڑک کے کنارے گاڑی کھڑی کر دی۔
"اماں جی! آپ کے شوہر کا کیا نام ہے؟گھر کے بارے میں اور گلی کے بارے میں کچھ تفصیل سے بتائیں ، اس طرح تو میں کبھی بھی آپ کو گھر نہیں پہنچا سکوں گا۔"
اس نے تحمل سے کام لیتے ہوئے کہا۔
"میں سعیدہ اماں کے نام سے جانی جاتی ہوں۔میاں بیچارے تو دس سال پہلے فوت ہو گئے۔ان کو تو لوگ بھول بھال گئے اور گلی کا میں تمہیں بتا رہی ہوں ، بہت بڑی گلی ہے۔تین دن پہلے گٹر کے دو ڈھکن لگا کر گئے ہیں ، بالکل نئے۔سیمنٹ سے جوڑ کر گئے ہیں۔ہر ماہ کوئی نہ کوئی اُتار کر لے جاتا تھا ، اب بےفکری ہو گئی ہے۔"
سالار نے بےاختیار گہرا سانس لیا۔
"اماں جی! کیا میں کہہ کر لوگوں سے آپ کی گلی کا پوچھوں کہ گٹر کے دو نئے ڈھکنوں والی گلی آپ وہاں کے کسی ایسے شخص کا نام بتائیں جسے لوگ جانتے ہوں جو قدرے معروف ہو۔"
"وہ مرتضیٰ صاحب ہیں جن کے بیٹے مظفر کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی کل صبح۔"
"اماں جی! یہ کوئی تعارف نہیں ہوتا۔"
وہ اس کی بات پر برا مان گئیں۔
"لو بھلا، اب کیا ہر گھر میں ٹانگ ٹوٹتی ہے کسی نا کسی کی۔"
سالار چپ چاپ گاڑی سے اتر گیا۔ آس پاس کی دوکانوں سے اس نے سعیدہ اماں کے بتائے ہوئے "کوائف" کے مطابق گلی تلاش کرنا شروع کی، مگر جلد ہی اسے پتا چل گیا کہ ان نشانیوں کے ساتھ وہ کم از کم آج کی تاریخ میں گھر نہیں ڈھونڈ سکتا۔
وہ مایوس ہو کر واپس لوٹا۔
"اماں جی! گھر میں فون ہے آپ کے؟ گاڑی کے اندر گھستے ہی اس نے پوچھا۔
"ہاں ہے۔"
سالار نے سکون کا سانس لیا۔
"اس کا نمبر بتائیں مجھے۔" سالار نے اپنا موبائل نکالتے ہوئے کہا۔
"نمبر کا تو مجھے نہیں پتا۔"
وہ ایک بار پھر دھک سے رہ گیا۔
"فون نمبر بھی نہیں پتا۔؟ اس نے شدید صدمے کے عالم میں کہا۔
"بیٹا! میں نے کون سا کبھی فون کیا ہے۔ میرے بیٹے خود کر لیتے ہیں، رشتہ دار بھی خود کر لیتے ہیں یا ضرورت ہو تو بیٹی فون ملا دیتی ہے۔"
"ادھر ماڈل ٹاؤن میں کس کے پاس گئی تھیں؟"
سالار کو یک دم خیال آیا۔
"ادھر کچھ رشتہ دار ہیں میرے۔ پوتے کی مٹھائی دینے گئی تھی۔"
انہوں نے فخریہ بتایا۔
سالار نے سکون کا سانس لیتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی۔
"ٹھیک ہے ادھر ہی چلتے ہیں۔ وہاں کا پتہ بتائیں۔"
"پتہ تو مجھے نہیں پتا۔"
سالار اس بار صدمے سے کچھ دیر کے لئے بول بھی نہ سکا۔
"تو پھر گئیں کیسے تھیں آپ؟"
"بیٹا! اصل میں جہاں جانا ہو ہمسائے کے بچے چھوڑ آتے ہیں، ان ہی کو گھر کا پتہ ہے۔ پچھلے دس سال سے مجھے وہی لے کر جا رہے ہیں۔ وہ چھوڑ آتے ہیں اور پھر وہاں سے بلال وغیرہ واپس چھوڑ جاتے ہیں۔ اصل میں یہ بلال وغیرہ بھی پہلے میرے محلے میں ہی رہتے تھے۔ یہی کوئی دس بارہ سال پہلے ادھر گئے ہیں اس لئے میرے پورے محلے کو ان کے گھر کا پتا ہے۔"
سالار نے کچھ نہیں کہا۔ اسے اب بھی امید تھی کہ جہاں سے اس نے ان خاتون کو پک کیا ہے بلال وغیرہ کا گھر وہیں کہیں ہو گا۔
سعیدہ اماں کی گفتگو جاری تھی۔
"آج تو ایسا ہوا کہ بلال کے گھر پر کوئی تھا ہی نہیں، صرف ملازمہ تھی ۔ میں کچھ دیر بیٹھی رہی پھر بھی وہ لوگ نہیں آئے تو میں نے سوچا خود گھر چلی جاؤں اور پھر ماشاءاللہ تم مل گئے۔"
"اماں جی! آپ رکشے والے کو کیا بتاتیں؟"
"وہی جو تمہیں بتایا ہے۔"
وہ ان کی ذہانت پر باغ باغ ہو گیا۔
"اس سے پہلے کبھی آپ اس طرح پتہ بتا کر گھر پہنچی ہیں؟"
اس نے قدرے افسوس بھرے لہجے میں گاڑی ریورس کرتے ہوئے پوچھا۔
"نہ ۔۔۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔۔ضرورت ہی نہیں پڑی۔"
سعیدہ اماں کا اطمینان قابل رشک تھا۔ سالار مزید کچھ کہے بغیر گاڑی سڑک پر لے آیا۔
"اب تم کہاں جا رہے ہو؟"
سعیدہ اماں زیادہ دیر چپ نہیں رہ سکیں۔
"جہاں سے میں نے آپ کو لیا تھا گھر اسی سڑک پر ہو گا،آپ نے کوئی ٹرن تو نہیں لیا تھا؟"
سالار نے بیک ویو مرر سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں، میں نے نہیں لیا۔"
سعیدہ اماں نے قدرے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
سالار نے ان کے لہجے پر غور نہیں کیا۔ اس نے اطمینان کی سانس لی۔ اس کا مطلب تھا گھر اس سڑک پر ہی کہیں تھا اور گلیوں کی نسبت کالونی میں گھر تلاش کرنا آسان تھا۔ وہ بھی اس صورت میں جب اسے صرف ایک سڑک کے گھر دیکھنے تھے۔
"تم سگریٹ پیتے ہو؟"
خاموشی یک دم ٹوٹی۔ وہ گاڑی ڈرائیو کرتے کرتے چونک گیا۔
"میں۔۔۔۔۔؟"
اس نے بیک ویو مرر میں دیکھا۔ سعیدہ اماں بھی بیک ویو مرر میں ہی دیکھ رہی تھیں۔
"آ۔۔۔۔۔ نہیں۔"
وہ سوال کو سمجھ نہیں سکا تھا۔
"کوئی اور نشہ وغیرہ۔"
وہ اس بار سوال سے زیادہ ان کی بے تکلفی پر حیران ہوا تھا۔
"آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟"
"بس ویسے ہی۔اب اتنا لمبا راستہ میں خاموش کیسے رہوں گی۔"
انہوں نے اپنی مجبوری بتائی۔
"آپ کو کیا لگتا ہے، میں کرتا ہوں گا کوئی نشہ؟"
سالار نے جواباً ان سے پوچھا۔
"نہیں، کہاں۔۔۔۔۔اسی لئے تو میں پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔ تو پھر نہیں کرتے؟"
ان کے انداز نے اس بار سالار کو محظوظ کیا۔
"نہیں۔" اس نے مختصراً کہا۔ وہ اب سگنل پر رکے ہوئے تھے۔
"کوئی گرل فرینڈ ہے؟" سالار کو لگا اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔ اس نے پلٹ کر سعیدہ اماں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"آپ نے کیا پوچھا ہے؟"
"میں نے کہا، کوئی گرل فرینڈ ہے؟" سعیدہ اماں نے "گرل فرینڈ" پر زور دیتے ہوئے کہا۔
سالار کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
"آپ تو پتا ہے گرل فرینڈ کیا ہوتی ہے؟"
سعیدہ اماں اس کے سوال پر برا مان گئیں۔
"کیوں بھئی۔۔۔۔۔ دو بیٹے ہیں میرے، مجھے نہیں پتا ہو گا کہ گرل فرینڈ کیا ہوتی ہے۔ جب انہیں باہر پڑھنے کے لئے بھیجا تھا تو کہہ کر بھیجا تھا میرے شوہر نے کہ گرل فرینڈ نہیں ہونی چاہئیے اور پھر مہینے میں ایک بار فون آتا تھا دونوں کا۔"
سگنل کھل گیا۔ سالار مسکراتے ہوئے سیدھا ہو گیا اور ایکسیلیٹر پر پاؤں دبا دیا۔
سعیدہ اماں نے بات جاری رکھی۔
"میں دونوں سے کہتی تھی کہ قسم کھا کر بتائیں، انہوں نے کوئی گرل فرینڈ بنائی تو نہیں۔ جب تک شادیاں نہیں ہو گئیں۔ ہر بار فون پر سب سے پہلے دونوں قسم کھا کر یہی بتایا کرتے تھے مجھے۔ سلام بھی بعد میں کیا کرتے تھے۔"
وہ فخریہ انداز میں بتاتی جا رہی تھیں۔
"بڑے تابعدار بچے ہیں میرے، دونوں نے گرل فرینڈ نہیں بنائی۔"
"آپ نے اپنی پسند سے دونوں کی کہیں شادیاں کی ہیں؟"
سالار نے پوچھا۔
"نہیں، دونوں نے ادھر ہی اپنی پسند سے شادیاں کی ہیں۔"
انہوں نے سادگی سے کہا۔ سالار کے حلق سے بے اختیار قہقہہ نکلا۔
"کیا ہوا؟" سعیدہ اماں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"کچھ نہیں، آپ کی بہوئیں انگریز ہیں؟"
"نہیں، پاکستانی ہیں مگر وہیں رہتی تھیں۔ میرے بیٹوں کے ساتھ کام کرتی تھیں مگر تم ہنسے کیوں؟"
سعیدہ اماں نے اپنا سوال دہرایا۔
"کوئی خاص بات نہیں۔"
سعیدہ اماں کچھ دیر خاموش رہیں پھر انہوں نے کہا۔
"تو تم نے بتایا نہیں کہ گرل فرینڈ۔۔۔۔۔"
سالار نے بات کاٹ دی۔
"نہیں ہے سعیدہ اماں! گرل فرینڈ بھی نہیں ہے۔"
"ماشاءاللہ۔۔۔۔۔ ماشاءاللہ۔" وہ ایک بار پھر اس ماشاءاللہ کا سیاق وسباق سمجھنے میں ناکام رہا۔
"گھر اپنا ہے؟"
"نہیں کرائے کا ہے۔"
"کوئی ملازم وغیرہ ہے؟"
"مستقل تو نہیں ہے مگر صفائی وغیرہ کے لئے ملازم رکھا ہوا ہے۔"
"اور یہ گاڑی تو اپنی ہی ہو گی؟"
"جی۔"
"اور تنخواہ کتنی ہے؟"
سالار روانی سے جواب دیتے دیتے ایک بار پھر چونکا۔ گفتگو کس نوعیت پر جا رہی تھی، فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔
"سعیدہ اماں! آپ یہاں اکیلی کیوں رہتی ہیں۔ اپنے بیٹوں کے پاس کیوں نہیں چلی جاتیں؟"
سالار نے موضوع بدلا۔
"ہاں، میرا یہی ارادہ ہے۔ پہلے تو میرا دل نہیں چاہتا تھا مگر اب یہ سوچا ہے کہ بیٹی کی شادی کر لوں تو پھر باہر چلی جاؤں گی۔ اکیلے رہتے رہتے تنگ آ گئی ہوں۔"
سالار اب اس سڑک پر آ گیا تھا جہاں سے اس نے سعیدہ اماں کو پک کیا تھا۔
"میں نے آپ کو یہاں سے لیا تھا۔ آپ بتائیں، ان میں سے کون سا گھر ہے؟" سالار نے گاڑی کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے دائیں طرف کے گھروں پر نظر ڈالی۔
"نمبر کا نہیں پتا، گھر کی تو پہچان ہو گی آپ کو؟"
سعیدہ اماں بغور گھروں کو دیکھ رہی تھیں۔
"ہاں۔۔۔۔ ہاں گھر کی پہچان ہے۔"
وہ گھر کی نشانیاں بتانے لگیں جو اتنی ہی مبہم تھیں، جتنا ان کے اپنے گھر کا پتہ۔ وہ سڑک کے آخری سرے پر پہنچ گئے۔ سعیدہ اماں گھر نہیں پہچان سکیں۔ سالار، بلال کے والد کا نام پوچھ کر گاڑی سے نیچے اتر گیا اور باری باری دونوں اطراف کے گھروں سے سعیدہ اماں کے بارے میں پوچھنے لگا۔
آدھ گھنٹہ کے بعد وہ اس سڑک پر موجود ہر گھر میں جا چکا تھا۔ مطلوبہ نام کے کسی آدمی کا گھر وہاں نہیں تھا۔
"آپ کو ان کا نام ٹھیک سے یاد ہے؟"
وہ تھک ہار کر سعیدہ اماں کے پاس آیا۔
"ہاں ۔۔۔۔ لو بھلا اب مجھے نام بھی پتا نہیں ہو گا۔"
سعیدہ اماں نے برا مانا۔
"لیکن اس نام کے کسی آدمی کا گھر یہاں نہیں ہے، نہ ہی کوئی آپ کے بارے میں جانتا ہے۔"
سالارنے گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"ہاں تو۔۔۔۔۔ یہ ساتھ والی سڑک پر دیکھ لو۔"
سعیدہ اماں نے کچھ فاصلے پر ایک اور سڑک کی طرف اشارہ کیا۔
"لیکن سعیدہ اماں! آپ نے کہا تھا کہ گھر اسی سڑک پر ہے۔" سالار نے کہا۔
"میں نے کب کہا تھا؟" وہ متعرض ہوئیں۔
"میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ نے ٹرن تو نہیں لیا۔ آپ نے کہا نہیں۔"سالار نے انہیں یاد کرایا۔
"وہ تو میں نے کہا تھا مگر یہ ہوتا کیا ہے؟"
سالار کا دل ڈوبا۔
"ٹرن؟"
"ہاں یہی۔"
"آپ کسی اور سڑک سے تو مڑ کر یہاں نہیں آئیں؟"
"لو تو اس طرح کہو نا۔" سعیدہ اماں کو تسلی ہوئی۔
"میں کیوں یہاں بیٹھ گئی تھی۔ تھک گئی تھی چل چل کر اور یہ سڑک تو چھوٹی سی ہے۔ یہاں میں چل کر کیا تھک سکتی تھی؟"
سالار نے گاڑی سٹارٹ کر لی۔ وہ دن بہت خراب تھا۔
"کس سڑک سے مڑ کر یہاں آئیں تھیں آپ؟"
اس نے سعیدہ اماں سے کہتے ہوئے گاڑی آگے بڑھائی۔
"میرا خیال ہے۔۔۔۔۔" وہ پہلی سڑک کو دیکھتے ہوئے الجھیں۔
"یہ ہے۔" انہوں نے کہا۔
سالار کو یقین تھا وہ سڑک نہیں ہو گی مگر اس نے گاڑی اس سڑک پر موڑ لی۔ یہ تو طے تھا کہ آج اس کا سارا دن اسی طرح ضائع ہونا تھا۔
اگلا ایک ڈیڑھ گھنٹہ وہ آس پاس کی مختلف سڑکوں پر سعیدہ اماں کو لے کر پھرتا رہا مگر اسے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ سعیدہ اماں کو ہی گھر دور سے شناسا لگتا۔ پاس جانے پر وہ کہنا شروع کر دیتیں۔
"نہ۔۔۔۔۔ نہ۔۔۔۔۔ نہ۔۔۔۔۔ یہ نہیں ہے۔"
وہ بالآخر کالونی میں تلاش چھوڑ کر انہیں واپس اسی محلہ میں لے آیا جہاں وہ پہلے ان کا گھر ڈھونڈتا رہا تھا۔
مزید ایک گھنٹہ وہاں ضائع کرنے کے بعد جب وہ تھک کر واپس گاڑی کے پاس آیا تو شام ہو چکی تھی۔
سعیدہ اماں اس کے برعکس اطمینان سے گاڑی میں بیٹھی تھیں۔
"ملا؟"
انہوں نے سالار کے اندر بیٹھتے ہی پوچھا۔
"نہیں، اب تو رات ہو رہی ہے۔ تلاش بے کار ہے۔ میں پولیس میں رپورٹ کرا دیتا ہوں آپ کی۔ آپ کی بیٹی یا آپ کے محلے والے آپ کے نہ ملنے پر پولیس سے رابطہ تو کریں گے ہی۔۔۔۔۔ پھر وہ لے جائیں گے آپ کو۔"
سالار نے ایک بار پھر گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے تجویز پیش کی۔
"چچ۔۔۔۔۔چچ۔۔۔۔۔ آمنہ بیچاری پریشان ہو رہی ہو گی۔"
سعیدہ اماں کو اپنی بیٹی کا خیال آیا۔ سالار کا دل چاہا وہ ان سے کہے کہ وہ ان کی بیٹی سے زیادہ پریشان ہے مگر وہ خاموشی سے ڈرائیو کرتے ہوئے گاڑی پولیس سٹیشن لے آیا۔
رپورٹ درج کرانے کے بعد وہ اٹھ کر وہاں سے جانے لگا۔ سعیدہ اماں بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"آپ بیٹھیں۔۔۔۔۔ آپ یہیں رہیں گی۔"
سالار نے ان سے کہا۔
"نہیں۔۔۔۔۔ ہم انہیں یہاں کہاں رکھیں گے، آپ انہیں ساتھ لے جائیں، ہم نے کسی سے رابطہ کیا تو ہم انہیں آپ کا پتہ دے دیں گے۔" پولیس انسپکٹر نے کہا۔

"لیکن میں تو انہیں آپ کے حوالے کر دینا چاہتا ہوں۔" سالار معترض ہوا۔
"دیکھیں، بوڑھی خاتون ہیں، اگر کوئی رابطہ نہیں کرتا ہم سے تو رات کہاں رہیں گی یہ۔۔۔۔۔ اور اگر کچھ دن اور گزر گئے۔۔۔۔۔"
پولیس انسپکٹر کہتا گیا۔ سعیدہ اماں نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔
"نہیں، مجھے ادھر نہیں رہنا۔ بیٹا! میں تمہارے ساتھ ہی چلوں گی۔ میں ادھر کہاں بیٹھوں گی آدمیوں میں۔"
سالار نے انہیں پہلی بار گھبراتے ہوئے دیکھا۔
"لیکن میں تو۔۔۔۔۔ اکیلا رہتا ہوں، وہ کہتے کہتے رک گیا، پھر اسے فرقان کے گھر کا خیال آیا۔
"اچھا ٹھیک ہے چلیں۔" اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
باہر گاڑی میں آکر اس نے موبائل پر فرقان سے رابطہ قائم کیا۔ وہ انہیں فرقان کے ہاں ٹھہرانا چاہتا تھا۔ فرقان ابھی ہاسپٹل میں ہی تھا۔ اس نے موبائل پر ساری صورت حال اسے بتائی۔
"نوشین تو گاؤں گئی ہوئی ہے۔" فرقان نے اسے بتایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے 

─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─