┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_30
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ رات ایک بجے پاکستان پہنچے۔ سکندر اور طیبہ سونے کے لئے چلے گئے۔ وہ اپنے کمرے میں آ گیا۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد اپنے کمرے کو دیکھ رہا تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ لائٹ آف کر کے اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ وہ فلائٹ کے دوران سوتا رہا تھا، اس لئے اس وقت اسے نیند محسوس ہو رہی تھی۔ شاید یہ جغرافیائی تبدیلی تھی جس کی وجہ سے وہ سو نہیں پا رہا تھا۔
"میں واقعی آہستہ آہستہ بے خوابی کا شکار ہو جاؤں گا۔"
اس نے تاریکی میں کمرے کی چھت کو گھورتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر اسی طرح بیڈ پر کروٹیں بدلتے رہنے کے بعد وہ اٹھ بیٹھا۔ کمرے کی کھڑکیوں کی طرف جاتے ہوئے اس نے پردوں کو ہٹا دیا۔ اس کی کھڑکیوں کے پار وسیع سائیڈ لان کے دوسرے طرف ہاشم مبین کا گھر نظر آ رہا تھا۔ اس نے اتنے سالوں اس کھڑکی کے پردے آگے پیچھے کرتے کبھی ہاشم مبین کے گھر پر غور نہیں کیا تھا، مگر اس وقت وہ بہت دیر تک تاریکی میں اس گھر کے اوپر والے فلور کی لائٹس میں نظر آنے والی اس عمارت کو دیکھتا رہا۔ بہت ساری باتیں اسے یک دم یاد آنے لگی تھیں۔ اس نے پردے ایک بار پھر برابر کر دئیے۔
"وسیم کے گھر والوں کو امامہ کا پتا چلا؟"
اس نے اگلے دن ناصرہ کو بلا کر پوچھا۔ ناصرہ نے اسے کچھ عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
"نہیں جی، کہاں پتا چلا۔ انہوں نے تو ایک ایک جگہ چھان ماری ہے، مگر کہیں سے کچھ پتا نہیں چلا۔ انہیں شک ابھی بھی آپ پر ہی ہے۔ سلمیٰ بی بی تو بہت گالیاں دیتی ہیں آپ کو۔" سالار اسے دیکھتا رہا۔
"گھر کے نوکروں سے بھی پولیس نے بڑی پوچھ گچھ کی تھی مگر میں نے تو مجال ہے ذرا بھی کچھ بتایا ہو۔ انہوں نے مجھے کام سے بھی نکال دیا تھا۔ مجھے بھی، میری بیٹی کوبھی، پھر بعد میں دوبارہ رکھ لیا۔ آپ کے بارے میں، مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں۔ شاید رکھا بھی ان لوگوں نے دوبارہ اسی لئے ہے کہ یہاں کی خبریں میں وہاں دیتی رہوں۔ میں بھی آئیں بائیں شائیں کر کے ٹال دیتی ہوں۔" وہ بات کو کہاں سے کہاں لے جا رہی تھی۔
سالار نے فوراً مداخلت کی۔" پولیس ابھی بھی ڈھونڈ رہی ہے؟"
"ہاں جی، ابھی بھی تلاش کر رہے ہیں۔ مجھے زیادہ تو پتا نہیں، وہ لوگ ہر چیز چھپاتے ہیں نوکروں سے۔ امامہ بی بی کی بات بھی نہیں کرتے ہمارے سامنے مگر پھر بھی کبھی کبھار کوئی اڑتی اڑتی خبر مل جاتی ہے ہمیں۔ سالار صاحب! کیا آپ کو بھی امامہ بی بی کا پتا نہیں ہے؟"
ناصرہ نے بات کرتے کرتے اچانک اس سے پوچھا۔
"مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے؟" سالار نے ناصرہ کو گھورا۔
"ایسے ہی پوچھ رہی ہوں جی! آپ کے ساتھ ان کی دوستی تھی، اس لئےمیں نے سوچا شاید آپ کو پتا ہو۔ وہ جو ایک بار آپ نے میرے ہاتھ کچھ کاغذات بھجوائے تھے، وہ کس لئے تھے؟" اس کا تجسس اب تشویش ناک حد تک بڑھ چکا تھا۔
"اس گھر کے کاغذات تھے، میں نے یہ گھر اس کے نام کر دیا تھا۔" ناصرہ کامنہ کھلے کاکھلا رہ گیا پھر وہ کچھ سنبھلی۔
"پر جی! یہ گھر تو سکندر صاحب کے نام پر ہے۔"
"ہاں، مگر یہ مجھے تب پتا نہیں تھا۔ یہ بات تم نے ان لوگوں کو بتائی ہے کہ تم یہاں سے کوئی کاغذ لے کے اس کے پاس گئی تھی۔" ناصرہ نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
"توبہ کریں جی! میں نے کیوں بتانا تھا۔ میں نے تو سکندر صاحب کو نہیں بتایا۔"
"اور یہ ہی بہتر ہے کہ تم اپنا منہ اسی طرح ہمیشہ کے لئے بند رکھو، اگر یہ بات ان کو پتا چلی تو پاپا تمہیں سامان سمیت اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیں گے۔ تم ان کے غصے کو جانتی ہو، جاؤ اب یہاں سے۔"
سالار نے ترشی سے کہا۔ ناصرہ خاموشی سے اس کے کمرے سے نکل گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ ویک اینڈ پر کبھی کبھار ہائکنگ کے لئے مارگلہ کی پہاڑیوں پر جایا کرتا تھا۔ وہ ویک اینڈ نہیں تھا مگر اچانک ہی اس کا موڈ وہاں جانے کا بن گیا۔
ہمیشہ کی طرح گاڑی نیچے پارک کر کے وہ ایک بیگ اپنی پشت پر ڈالے ہائکنگ کرتا رہا۔ واپسی کا سفر اس نے تب شروع کیا جب سائے لمبے ہونے لگے۔ وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ اسے اپنی گاڑی تک پہنچنے میں دو گھنٹے لگیں گے۔ واپسی کے سفر کو کچھ تیزی سے طے کرنے کے لئے وہ سڑک پر آ گیا جہاں سے عام طور پر لوگ گزرتے تھے۔ اس نے ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا جب اسے اپنے پیچھے تیز قدموں کی آواز سنائی دی۔ سالار نے ایک نظر مڑ کر دیکھا۔ وہ دو لڑکے تھے جو اس سے کافی پیچھے تھے، مگر بہت تیزی سے آگے آ رہے تھے۔
سالار نے گردن واپس موڑ لی اور اسی طرح اپنا نیچے کا سفر جا ری رکھا۔ اسے اپنے حلیے سے وہ لڑکے مشکوک نہیں لگے تھے۔ جینز اور شرٹس میں ملبوس ان کا حلیہ عام لڑکوں جیسا تھا مگر پھر چلتے چلتے اسے یک دم کوئی اپنے بالکل عقب میں محسوس ہوا۔ وہ برق رفتاری سے پلٹا اور ساکت ہو گیا۔ ان دونوں لڑکوں کے ہاتھ میں ریوالور تھے اور وہ اس کے بالکل سامنے تھے۔
"اپنے ہاتھ اوپر کرو ورنہ ہم تمہیں شوٹ کر دیں گے۔"
ان میں سے ایک نے بلند آواز میں کہا۔ سالار نے بے اختیار اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دئیے۔ ان میں سے ایک اس کے پیچھے گیا اور بہت تیزی سے اس نے اسے کھینچتے ہوئے دھکا دیا۔ سالار لڑکھڑایا مگر سنبھل گیا۔
"ادھر چلو۔" سالار نے کسی قسم کی مزاحمت کئے بغیر اس طرف جانا شروع کر دیا جہاں وہ اسے سڑک سے ہٹانا چاہتے تھے، تاکہ کوئی یک دم وہاں نہ آ جائے۔ ان میں سے ایک تقریباً اسے دھکیلتے ہوئے اس راستے سے ہٹا کر جھاڑیوں اور درختوں کے بہت اندر تک لے گیا۔
"گھٹنوں کے بل بیٹھو۔" ایک نے درشتی سے اس سے کہا۔
سالار نے خاموشی سے اس کے حکم پر عمل کیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ لوگ اس کی چیزیں چھینیں گے اور پھر اسے چھوڑ دیں گے اور وہ ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہتا تھا، جس پر وہ دونوں مشتعل ہو کر اسے نقصان پہنچاتے۔ ان میں سے ایک اس کے پیچھے گیا اور اس نے اس کی پشت پر لٹکا ہوا چھوٹا سا بیگ اتار لیا۔ اس بیگ میں ایک کیمرہ، چند فلم رول، بیٹری ، ٹیلی اسکوپ، فرسٹ ایڈکٹ، والٹ، پانی کی بوتل اور چند کھانے کی چیزیں تھیں جس لڑکے نے بیگ اتارا تھا وہ بیگ کھول کر اندر موجود چیزوں کا جائزہ لیتا رہا پھر اس نے والٹ کھول کر اس کے اندر موجود کرنسی نوٹ اور کریڈٹ کاررڈز کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد اس نے بیگ میں سے ٹشو کا پیکٹ نکال لیا اور پھر فرسٹ ایڈکٹ بھی نکال لی۔
"اب تم کھڑے ہو جاؤ۔" اس لڑکے نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ سالار اس طرح ہاتھ سر سے اوپر اٹھائے کھڑا ہو گیا۔ اس لڑکے نے اس کی پشت پر جا کر اس کی شارٹس کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں ٹٹولا اور اس میں موجود گاڑی کی چابی نکال لی۔
"گڈ! کار ہے؟" سالار کو پہلی بار کچھ تشویش ہوئی۔
"تم لوگ میرا بیگ لے جاؤ مگر کار کو رہنے دو۔" سالار نے پہلی بار انہیں مخاطب کیا۔
"کیوں؟ کار کو کیوں رہنے دیں۔ تم ہماری خالہ کے بیٹے ہو کہ کار کو رہنے دیں۔" اس لڑکے نے درشت لہجے میں کہا۔
"تم لوگ اگر کار لے جانے کی کوشش کرو گے تو تمہیں بہت سے پرابلمز ہوں گے۔ صرف کار کی چابی مل جانے سے تم کار نہیں لے جا سکو گے۔ اس میں اور بھی بہت سے لاکس ہیں۔" سالار نے ان سے کہا۔
"وہ ہمارا مسئلہ ہے، تمہارا نہیں۔" اس لڑکے نے اس سے کہا اور پھر آگے بڑھ کر اس کی آنکھوں سے گلاسز کھینچ لئے۔
"اپنے جاگرز اتار دو۔"سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
"جاگرز کس لئے؟" اس بار اس لڑکے نے جواب دینے کے بجائے پوری وقت سے ایک تھپڑ سالار کے منہ پر مارا۔ وہ لڑکھڑا گیا، چند لمحوں کے لئے اس کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے۔
"دوبارہ کوئی سوال مت کرنا، جاگرز اتارو۔"
سالار خشمگیں نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ دوسرے لڑکے نے اس پر تانے ہوئے ریوالور کے چیمبر کو ایک بار جتانے والے انداز میں حرکت دی۔ پہلے لڑکے نے ایک اور تھپڑ اس بار سالار کے دوسرے گال پر دے مارا۔
"اب دیکھو اس طرح۔۔۔۔۔ جاگرز اتارو۔" اس نے سختی سے کہا۔ سالار نے اس بار اس کی طرف دیکھے بغیر نیچے جھک کر آہستہ آہستہ اپنے دونوں جاگرز اتار دئیے۔ اب اس کے پیروں میں صرف جرابیں رہ گئی تھیں۔
"اپنی شرٹ اتارو۔" سالار ایک بار پھر اعتراض کرنا چاہتا تھا مگر وہ دوبارہ تھپڑ کھانا نہیں چاہتا تھا۔ اگر ان دونوں کے پاس ریوالور نہ ہوتے تو وہ جسمانی طور پر ان سے بہت بہتر تھا اور یقیناً اس وقت ان کی ٹھکائی کر رہا ہوتا، مگر ان کے پاس ریوالور کی موجودگی نے یک دم ہی اسے ان کے سامنے بے بس کر دیا تھا۔ اس نے اپنی شرٹ اتار کر اس لڑکے کی طرف بڑھائی۔
"نیچے پھینکو۔" اس لڑکے نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ سالار نے شرٹ نیچے پھینک دی۔ اس لڑنے نے اپنے بائیں ہاتھ کو جیب میں ڈال کر کوئی چیز نکالی۔ وہ پلاسٹک کی باریک ڈوری کا ایک گچھا تھا۔ اسے دیکھتے ہی سالار کی سمجھ میں آ گیا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بے اختیار پریشان ہوا، شام ہو رہی تھی، کچھ ہی دیر میں وہاں اندھیرا چھا جاتا اور وہ وہاں سے رہائی کس طرح حاصل کرتا۔
"دیکھو، مجھے باندھو مت، میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ تم میرا بیگ اور میری کار لے جاؤ۔" اس بار اس نے مدافعانہ انداز میں کہا۔
اس لڑکے نے کچھ بھی کہے بغیر پوری قوت سے اس کے پیٹ میں ایک گھونسہ مارا۔ سالار درد سے دہرا ہو گیا۔ اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی تھی۔
"کوئی مشورہ نہیں۔"
اس لڑنے نے جیسے اسے یاد کروایا اور زور سے ایک طرف دھکیلا۔ درد سے بلبلاتے ہوئے سالار نے اندھوں کی طرح اس کی پیروی کی۔ ایک درخت کے تنے کے ساتھ بٹھا کر اس لڑکے نے بڑی مہارت کے ساتھ اس کے دونوں بازوؤں کو پتلے سے تنے کے پیچھے لے جا کر اس کی کلائیوں پر وہ ڈوری لپیٹنا شروع کر دی۔ دوسرا لڑکا سالار سے ذرا فاصلے پر اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے سالار پر ریوالور تانے رہا۔
اس کے ہاتھوں کو اچھی طرح باندھنے کے بعد اس لڑکے نے سامنے آ کر اس کے پیروں کی جرابیں اتاریں اور پھر فرسٹ ایڈکٹ میں موجود قینچی سے اس نے سالار کی شرٹ کی پٹیاں کاٹنی شروع کر دیں۔ ان میں سے کچھ پٹیوں کو اس نے ایک بار پھر بڑی مہارت کے ساتھ اس کے ٹخنوں کے گرد لپیٹ کر گرہ لگا دی پھر اس نے ٹشو کا پیکٹ کھولا اور اس میں موجود سارے ٹشو باہر نکال لئے۔
منہ کھولو۔"سالار جانتا تھا، وہ اب کیا کرنے والا ہے۔ وہ جتنی گالیاں اسے دل میں دے سکتا تھا اس وقت دے رہا تھا ۔ اس لڑکے نے یکے بعد دیگرے وہ سارے ٹشو اس کے منہ میں ٹھونس دئیے اور پھر شرٹ کی واحد بچ جانے والی پٹی کو گھوڑے کی لگام کی طرح اس کے منہ میں ڈالتے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے اسے باندھ دیا۔
دوسرا لڑکا اب اطمینان سے بیگ بند کر رہا تھا، پھر چند منٹوں کے بعد وہ دونوں وہاں سے غائب ہو چکے تھے۔ ان کے وہاں سے جاتے ہی سالار نے اپنے آپ کو آزاد کرنے کی کوشش شروع کر دی، مگر جلد ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ ایک بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہو چکا ہے۔ اس لڑکے نے بڑی مہارت کے ساتھ اسے باندھا تھا، وہ صرف ہلنے جلنے کی کوشش سے خود کو آزاد نہیں کر سکتا تھا، نہ ہی ڈوری ڈھیلی کر سکتا تھا۔ وہ ڈوری اس کے حرکت کرنے پر اس کے گوشت کے اندر گھستی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کی حالت اس وقت بے حد خراب تھی۔ وہ نہ کسی کو آواز دے سکتا تھا نہ دوسرے طریقے سے خود اپنی طرف کسی کو متوجہ کر سکتا تھا۔
اس کے اردگرد قد آدم جھاڑیاں تھیں اور شام کے ڈھلتے سایوں میں ان جھاڑیوں میں اس کی طرف کسی کا متوجہ ہو جانا کوئی معجزہ ہی ہو سکتا تھا۔ اس کے جسم پر اس وقت لباس کے نام پر صرف گھٹنوں سے کچھ نیچے تک لٹکنے والی برمودا شارٹس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا اور شام ہونے کے ساتھ ساتھ خنکی بڑھ رہی تھی۔ گھر میں کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ہائکنگ کے لئے آیا ہوا ہے اور جب گھر نہ پہنچنے پر اس کی تلاش شروع ہو گی تب بھی یہاں اس تاریکی میں درختوں اور جھاڑیوں کے درمیان بندھے ہوئے اس کے وجود تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔
آدھے گھنٹے کی جدوجہد کے بعد جب اپنے پیروں کے گرد موجود پٹیوں کو ڈھیلا کرنے اور پھر انہیں کھولنے میں کامیاب ہوا، اس وقت سورج مکمل غروب ہو چکا تھا اگر چاند نہ نکلا ہوتا تو شاید وہ اپنے ہاتھ پاؤں اور اردگرد کے ماحول کو بھی نہ دیکھ پاتا۔اِکا دُکا گزرنے والی گاڑیوں اور لوگوں کا شور اب نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کے اردگرد جھینگروں کی آوازیں گونج رہی تھیں اور وہ گردن سے کمر تک اپنی پشت پر درخت کے تنے کی وجہ سے آنے والی رگڑ اور خراشوں کو بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔ درخت کے دوسری طرف اس کےہاتھوں کی کلائیوں میں موجود ڈوری اب اس کے گوشت میں اتری ہوئی تھی۔ وہ ہاتھوں کو مزید حرکت دینے کے قابل نہیں رہا تھا۔ وہ کلائیوں سے اٹھتی ٹیسیں برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کے منہ کے اندر موجود ٹشوز اب گل چکے تھے اور ان کے گلنے کی وجہ سے وہ منہ میں لگام کی طرح کسی ہوئی پٹی کو حرکت دینے لگا تھا مگر وہ گلے سے آواز نکالنے میں اب بھی بری طرح ناکام تھا کیونکہ وہ ان گلے ہوئے ٹشوز کو نہ نگل سکتا تھا، نہ اگل سکتا تھا۔ وہ اتنے زیادہ تھے کہ وہ انہیں چیونگم کی طرح چبانے میں بھی ناکام تھا۔
اس کے جسم پر کپکپی طاری ہو رہی تھی۔ وہ صبح تک اس حالت میں وہاں یقیناً ٹھٹھر کر مر جاتا اگر خوف یا کسی زہریلے کیڑے کے کاٹنے سے نہ مرتا تو۔ اس کے جسم پر اب چھوٹے چھوٹے کیڑے رینگ رہے تھے اور بار بار وہ اسے کاٹ رہے تھے۔ وہ اپنی برہنہ ٹانگوں پر چلنے اور کاٹنے والے کیڑوں کو جھٹک رہا تھا مگر باقی جسم پر رینگنے والے کیڑوں کو جھٹکنے میں ناکام تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ ان چھوٹے کیڑوں کے بعد اسے اور کن کیڑوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر وہاں بچھو اور سانپ ہوتے تو۔۔۔۔۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حالت مزید خراب ہو رہی تھی۔" آخر یہ سب میرے ساتھ کیوں ہوا ہے؟ آخر میں نے کیا کیا ہے؟" وہ بے چارگی سے سوچنے میں مصروف تھا۔" اور میں یہاں مر گیا تو۔۔۔۔۔ تو میری لاش تک دوبارہ کسی کو نہیں ملے گی۔ کیڑے مکوڑے اور جانور مجھے کھا جائیں گے۔"
اس کی حالت غیر ہونے لگی۔ ایک عجیب طرح کے خوف نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ تو کیا میں اس طرح مروں گا، یہاں۔۔۔۔۔ اس حالت میں۔۔۔۔۔ بے لباس۔۔۔۔۔ بے نشان۔۔۔۔۔ گھر والوں کو پتا تک نہیں ہو گا میرے بارے میں۔ کیا میرا انجام یہ ہونا ہے۔۔۔۔۔ اس کے دل کی دھڑکن رکنے لگی۔ اسے اپنی موت سے یک دم خوف آیا اتنا خوف کہ اسے سانس لینا مشکل لگنے لگا۔ اسے یوں لگا جیسے موت اس کے سامنے اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑی ہو۔ اس کے انتظار میں۔ یہ دیکھنے کہ وہ کس طرح سسک سسک کر مرتا ہے۔
وہ درد کی پرواہ کئے بغیر ایک بار پھر اپنی کائیوں کی ڈوری کو توڑنے یا ڈھیلی کرنے کی کوشش کرنے لگا، اس کے بازو شل ہونے لگے۔
پندرہ منٹ بعد اس نے ایک بار پھر اپنی جدوجہد چھوڑ دی اور اس وقت اسے احساس ہوا کہ اس کے منہ کی پٹی ڈھیلی ہو گئی تھی، وہ گردن کو ہلاتے ہوئے اسے منہ سے نکال سکتا تھا۔ اس کے بعد اس نے ٹشوز نکال دئیے تھے۔ اگلے کئی منٹ وہ گہرے سانس لیتا رہا پھر وہ بلند آواز میں اپنی مدد کے لئے آوازیں دینے لگا۔ اتنی بلند آواز میں جتنی وہ کوشش کر سکتا تھا۔
اس کا انداز بالکل ہذیانی تھا۔ آدھے گھنٹے تک مسلسل آوازیں دیتے رہنے کے بعد اس کی ہمت اور گلا دونوں جواب دے گئے۔ اس کا سانس پھول رہا تھا، یوں جیسے وہ کئی میل دوڑتا رہا ہو مگر اب بھی کوئی اس کی مدد کے لئے نہیں آیا تھا۔ کلائی کے زخم اب اس کے لئے ناقابل برداشت ہو رہے تھے اور کیڑے اب اس کے چہرے اور گردن پر بھی کاٹ رہے تھے۔ وہ نہیں جانتا تھا یک دم اسے کیا ہوا، بس وہ بلند آواز میں بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
وہ زندگی میں پہلی بار بری طرح رو رہا تھا۔ شاید زندگی میں پہلی بار اسے اپنی بے بسی کا احساس ہو رہا تھا اور اس وقت درخت کے اس تنے کے ساتھ بندھے سسکتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ مرنا نہیں چاہتا ہے۔ وہ موت سے اسی طرح خوف زدہ ہو رہا تھا جس طرح، نیو ہیون میں ہوا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا وہ کتنی دیر اسی طرح بے بسی کے عالم میں بلند آواز میں روتا رہا پھر اس کے آنسو خشک ہونے لگے۔ شاید وہ اتنا تھک چکا تھا کہ اب رونا بھی اس کے لئے ممکن نہیں رہا تھا۔ نڈھال سا ہو کر اس نے درخت کے تنے سےسر ٹکاتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے کندھوں اور بازوؤں میں اتنا درد ہو رہا تھا کہ اسے لگ رہا تھا وہ کچھ دیر میں مفلوج ہو جائیں گے پھر وہ کبھی انہیں حرکت نہیں دے سکے گا۔
"میں نے کبھی کسی کے ساتھ اس طرح نہیں کیا پھر میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟" اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو بہنے لگے۔
"سالار! میرے لئے پہلے ہی بہت پرابلمز ہیں، تم اس میں اضافہ نہ کرو، میری زندگی پہلے بہت مشکل ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اور مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ کم از کم تم تو میری سچویشن کو سمجھو، میری مشکلات کو مت بڑھاؤ۔" درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگائے سالار نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ اس کا حلق خشک ہو رہا تھا۔نیچے، بہت نیچے، بہت دور۔۔۔۔۔اسلام آباد کی روشنیاں نظر آ رہی تھیں۔
"میں تمہارے مسائل میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں؟میں۔۔۔۔ مائی ڈئیر امامہ ! میں تو تمہاری مدد میں گھل رہا ہوں۔ تمہارے مسائل ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تم خود سوچو، میرے ساتھ رہ کر تم کتنی اچھی اور محفوظ زندگی گزار سکتی ہو۔" سالار نے اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔
"سالار! مجھے طلاق دے دو۔"بھرائی ہوئی لجاجت آمیز آواز۔
"سویٹ ہارٹ! تم کورٹ میں جا کر لے لو۔ جیسا کہ تم کہہ چکی ہو۔"
وہ اب چپ چاپ خود سے بہت دور نظر آنے والی روشنیوں کو دیکھ رہا تھا۔ کوئی اس کے سامنے جیسے آئینہ لے کر کھڑا ہو گیا تھا جس میں وہ اپنا عکس دیکھ سکتا تھا اور اپنے ساتھ ساتھ کسی اور کا بھی۔
"میں نے امامہ کے ساتھ صرف مذاق کیا تھا۔" وہ بڑ بڑایا۔
"میں۔۔۔۔ میں اسے کوئی تکلیف پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔" اسے اپنے الفاظ کھوکھلے لگے۔
وہ پتا نہیں کس کو وضاحت دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ بہت دیر تک وہ اسی طرح اسلام آباد کی روشنیوں کو دیکھتا رہا پھر اس کی آنکھیں دھندلانے لگیں۔
"میں مانتا ہوں، مجھ سے کچھ غلطیاں ہو گئیں۔"
اس بار اس کی آواز بھرائی ہوئی سرگوشی تھی۔" میں نے جانتے بوجھتے اس کے لئے مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کی۔ میں نے اسے دھوکا دیا مگر مجھ سے غلطی ہو گئی اور مجھے پچھتاوا بھی ہے۔ میں جانتا ہوں میرے طلاق نہ دینے سے اور جلال کے بارے میں جھوٹ بول دینے سے اسے بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ مجھے واقعی پچھتاوا ہے اس سب کے لئے مگر اس کے علاوہ تو میں نے کسی اور کو کبھی دھوکا نہیں دیا، کسی کے لئے پریشانی کھڑی نہیں کی۔"
وہ ایک بار پھر رونے لگا۔
"میرے خدا۔۔۔۔۔ اگر ایک بار میں یہاں سے بچ گیا، میں یہاں سے نکل گیا تو میں امامہ کو ڈھونڈوں گا، میں اسے طلاق دے دوں گا، میں جلال کے بارے میں بھی اسے سچ بتا دوں گا۔ بس ایک بار آپ مجھے یہاں سے جانے دیں۔"
وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ پہلی بار اسے احساس ہو رہا تھا کہ امامہ نے اس کے طلاق دینے سے انکار پر کیا محسوس کیا ہو گا۔ شاید اسی طرح اس نے بھی اپنے ہاتھ بندھے ہوئے محسوس کئے ہوں گے جس طرح وہ کر رہا تھا۔
وہاں بیٹھے ہوئے پہلی بار وہ امامہ کی بے بسی، خوف اور تکلیف کو محسوس کر سکتا تھا۔ اس نے جلال انصر کی شادی کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا تھا اور اس کے جھوٹ پر امامہ کے چہرے کا تاثر اسے اب بھی یاد تھا۔ اس وقت وہ اس تاثر سے بے حد محظوظ ہوا تھا۔ وہ اسلام آباد سے لاہور تک تقریباً پوری رات روتی رہی تھی اور وہ بے حد مسرور تھا۔
وہ اس وقت اس کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کا اندازہ کر سکتا تھا۔ اس اندھیری رات میں اس گاڑی میں سفر کرتے ہوئے اسے اپنے آگے اور پیچھے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہو گا۔ واحد پناہ گاہ، جس کا وہ سوچ کر نکلی تھی وہ جلال انصر کا گھر تھا اور سالار سکندر نے اسے وہاں جانے نہیں دیا تھا۔ وہ رات کے اس پہر وہاں اعصاب میں اترنے والی تاریکی میں بیٹھ کر ان اندیشوں اور خوف کا اندازہ کر سکتا تھا جو اس رات امامہ کو رلا رہے تھے۔
"مجھے افسوس ہے، مجھے واقعی افسوس ہے لیکن۔۔۔۔۔لیکن میں کیا کر سکتا ہوں۔اگر۔۔۔۔۔ اگر وہ مجھے دوبارہ ملی تو میں اس سے ایکسکیوز کر لوں گا۔ میں جس حد تک ممکن ہوا اس کی مدد کروں گا مگر اس وقت۔۔۔۔۔ اس وقت تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اگر۔۔۔۔ اگر میں نے کبھی۔۔۔۔۔۔ کبھی کوئی نیکی کی ہے تو اس کے بدلے رہائی دلا دے۔ اوہ گاڈ پلیز۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ پلیز۔" اس نے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اپنی نیکیاں گننے کی کوشش کی جنہیں کو گنوا سکے۔ اس وقت پہلی بار اس پر یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ اس نے زندگی میں اب تک کوئی نیکی نہیں کی تھی۔ کوئی نیکی جسے وہ اس وقت اللہ کے سامنے پیش کر کے اس کے بدلے میں رہائی مانگتا۔ ایک اور خوف نے پھر اس کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس نے زندگی میں کبھی خیرات نہیں کی تھی اور وہ اس پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ وہ ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں ٹپ خوش دلی سے دیا کرتا تھا، مگر کبھی کسی فقیر کے ہاتھ پھیلانے پر اس نے اسے کچھ نہیں دیا تھا۔
اسکول کالج میں مختلف کاموں کے لئے جب فنڈ جمع ہوتے تب بھی وہ ٹکٹس خریدنے یا بیچنے سے صاف انکار کر دیتا۔
"میں چیریٹی پر یقین نہیں رکھتا۔" اس کی زبان پر روکھے انداز میں صرف ایک ہی جملہ ہوتا۔
"میرے پاس اتنی فالتو رقم نہیں ہے کہ میں ہر جگہ لٹاتا پھروں۔" اس کا یہ رویہ نیو ہیون میں بھی جاری رہا تھا۔ یہ سب صرف چیریٹی تک ہی محدود نہیں تھا۔ وہ چیریٹی کے علاوہ بھی کسی کی مدد کرنے پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اسے کوئی ایسا لمحہ یاد نہیں آیا، جب اس نے کسی کی مدد کی ہو، صرف امامہ کی مدد کی تھی اور اس مدد کے بعد اس نے جو کچھ کیا تھا اس کے بعد وہ اسے نیکی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ وہ عبادت کرنے کا بھی عادی نہیں تھا۔ شاید بچپن میں اس نے چند بار سکندر کے ساتھ عید کی نماز پڑھی ہو مگر وہ بھی عبادت سے زیادہ ایک رسم تھی۔ اسے نیو ہیون میں وہ رات یاد آئی جب وہ عشاء کی نماز ادھوری چھوڑ کر بھاگ آیا تھا اور اس کے ساتھ اسے اس hooker کو دئے ہوئے 50 ڈالرز بھی یاد آئے۔ شاید وہ واحد موقع تھا جب اسے کسی پر ترس آیا تھا۔ وہ مستقل اپنے ذہن کو اپنی کسی نیکی کی تلاش میں کھنگالتا رہا مگر ناکام رہا۔
اور پھر اسے اپنے گناہ یاد آنے لگے۔ کیا تھا جو وہ نہیں کر چکا تھا۔ اس کے آنسو ، گڑگڑانا، رونا سب کچھ یک دم ختم ہو گیا۔ حساب کتاب بالکل صاف تھا۔ وہ اگر آج اس حالت میں مر جاتا تو اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوتی۔ بائیس سال کی عمر میں وہاں بیٹھے کئی گھنٹے صرف کرنے پر بھی جس شخص کو اپنی کوئی نیکی یاد نہ آئے جبکہ اس شخص کا آئی کیو لیول 150 ہو اور اس کی میموری فوٹوگرافک۔۔۔۔۔ وہ شخص اللہ سے یہ چاہتا ہو کہ اسے اس کی کسی نیکی کے بدلے اس آزمائش سے رہا کر دیا جائے جس میں وہ پھنس گیا ہے۔
"What is next to ecstasy?"
اس نے ٹین ایج میں کوکین پیتے ہوئے ایک بار اپنے دوست سے پوچھا تھا، وہ بھی کوکین لے رہا تھا۔
"more ecstasy" اس نے کہا تھا۔ اس نے کوکین لیتے ہوئے اسے دیکھا۔
There is no end to ecstasy, it is preceded by pleasure and followed by more ecstasy.
وہ نشے کی حالت میں اس سے کہہ رہا تھا۔ سالار مطمئن نہیں ہوا۔
No, it does end. What happens when it ends? When it really ends?
اس کے دوست نے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا۔
You know it yourself, don’t you? You have been through it off and on.
سالار جواب دینے کے بجائے دوبارہ کوکین لینے لگا تھا۔
اس کی کلائیوں کے گوشت میں اترتی ڈوری اسے اب جواب دے رہی تھی۔"Pain" (درد)
What is next to pain?
اس نے مضحکہ خیز لہجے میں اس رات امامہ ہاشم سے پوچھا تھا۔
Nothingness
رسی نما کوئی چیز لہراتے ہوئے اس کے جسم پر گری تھی۔ اس کے سر، چہرے،گردن، سینے، پیٹ۔۔۔۔۔اور وہاں سے تیز رفتاری سے رینگتی ہوئی اتر گئی۔ سالار نے کانپتے جسم کے ساتھ اپنی چیخ روکی تھی۔ وہ کوئی سانپ تھا جو اسے کاٹے بغیر چلا گیا تھا۔ اس کا جسم پسینے میں نہا گیا تھا۔ اس کا جسم اب جاڑے کے مریض کی طرح تھرتھر کانپ رہا تھا۔
"Nothingness" آواز بالکل صاف تھی۔
"And what is next to nothingness?"
تحقیر آمیز آواز اور مسکراہٹ اس کی تھی۔
"Hell"
اس نے یہی کہا تھا۔ وہ پچھلے آٹھ گھنٹے سے وہاں بندھا ہوا تھا۔ اس ویرانے، اس تاریکی ، اس وحشت ناک تنہائی میں۔ وہ پورا ایک گھنٹہ حلق کے بل پوری وقت سے مدد کے لئے پکارتا رہا تھا۔ یہاں تک کہ اس کا حلق آواز نکالنے کے قابل نہیں رہا تھا۔
Nothingness سے Hell وہ ان دونوں کے بیچ کہیں معلق تھا یا شاید Nothingness میں داخل ہونے والا تھا اور Hell تک پہنچنے والا تھا۔
"تمہیں خوف نہیں آتا یہ پوچھتے ہوئے کہ Hell کہ بعد کیا آئے گا؟ دوزخ کے بعد آگے کیا آ سکتا ہے؟ انسان کے معتوب اور مغضوب ہوجانے کے بعد باقی بچتا ہی کیا ہے جسے جاننے کا تمہیں اشتیاق ہے؟"
سالار نے وحشت بھری نظروں سے اردگرد دیکھا۔ وہ کیا تھا قبر یا دوزخ یا زندگی میں اس کا ایک منظر۔۔۔۔۔بھوک ، پیاس، بےبسی، بے یاری ومددگاری، جسم پر چلتے کیڑے جنہیں وہ خود کو کاٹنے سے روک تک نہیں پا رہا تھا۔ مفلوج ہوتے ہوئے ہاتھ پاؤں، پشت اور ہاتھوں کی کلائیوں پر لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہوئے زخم۔۔۔۔ خوف تھا یا دہشت، پتا نہیں کیا تھا مگر وہ بلند آواز میں پاگلوں کی طرح چیخیں مارنے لگا تھا۔ اس کی چیخیں دور دور تک فضا میں گونج رہی تھیں۔ ہذیانی اور جنونی انداز میں بلند کی جانے والی بے مقصد اور خوفناک چیخیں۔ اس نے زندگی میں اس طرح کا خوف کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ کبھی بھی نہیں۔ اسے اپنے اردگرد وعجیب سے بھوت چلتے پھرتے نظر آنے لگے تھے۔
اسے لگا رہا تھا اس کے دماغ کی رگ پھٹنے والی ہے یا پھر نروس بریک ڈاون، پھر اس کی چیخیں آہستہ آہستہ دم توڑتی گئیں۔ اس کا گلا پھر بند ہو گیا تھا۔ اب صرف سرسراہٹیں تھیں جو اسے سنائی دے رہی تھیں۔ اسے یقین ہو چکا تھا کہ وہ اب مر رہا ہے۔ اس کا ہارٹ فیل ہو رہا ہے یا پھر وہ اپنا ذہنی توازن کھو دینے والا ہے اور اسی وقت اچانک تنے کے پیچھے بندھی ہوئی کلائیوں کی ڈوری ڈھیلی ہو گئی۔ ہوش و حواس کھوتے ہوئے اس کے اعصاب نے ایک بار پھر جھٹکا لیا۔
اس نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دباتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو حرکت دی۔ ڈوری اور ڈھیلی ہوتی گئی۔ شاید مسلسل تنے کی رگڑ لگتے لگتے درمیان سے ٹوٹ گئی تھی۔ اس نے ہاتھوں کو کچھ اور حرکت دی اور تب اسے احساس ہوا کہ وہ درخت کے تنے سے آزاد ہو چکا تھا۔
اس نے بے یقینی کے عالم میں اپنے ہاتھوں کو سیدھا کیا۔ درد کی تیز لہریں سے کے بازوؤں سے گزریں۔
"کیا میں، میں بچ گیا ہوں؟"
"کیوں؟ کس لئے؟"ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھاس نے اپنی گردن کے گرد موجود اس پٹی کو اتارا جو پہلے اس کے منہ کے گرد باندھی گئی تھی، بازوؤں کو دی گئی معمولی حرکت سے اس کے منہ سے کراہ نکلی تھی۔ اس کے بازوؤں میں شدید تکلیف ہو رہی تھی۔ اتنی تکلیف کہ اسے لگ رہا تھا وہ دوبارہ کبھی اپنے بازو استعمال نہیں کر سکے گا۔ اس کی ٹانگیں بھی سن ہو رہی تھیں۔ اس نے کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ وہ لڑکھڑا کر بازوؤں کے بل زمین پر گرا۔ ہلکی سی چیخ اس کے منہ سے نکلی۔ اس نے دوسری کوشش ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل کی۔ اس بار وہ کھڑا ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
وہ دونوں لڑکے اس کے جاگرز اور گھڑی بھی لے جا چکے تھے۔ اس کی جرابیں وہیں کہیں پڑی تھیں۔ وہ اندھیرے میں انہیں ٹٹول کر پہن سکتا تھا مگر بازوؤں اور ہاتھوں کو استعمال میں لانا پڑتا اور وہ اس وقت یہ کام کرنے کے قابل نہیں تھا نہ جسمانی طور پر، نہ ذہنی طور پر۔
وہ اس وقت صرف وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔ ہر قیمت پر، اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا، جھاڑیوں سے الجھتا، خراشیں لیتا وہ کسی نہ کسی طرح اس راستے پر آ گیا تھا جس راستے سے وہ دونوں ہٹا کر اسے وہاں لے آئے تھے اور پھر ننگے پاؤں اس نے نیچے کا سفر طے کیا۔ اس کے پیروں میں پتھر اور کنکریاں چبھ رہی تھیں مگر وہ جس ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکا تھا اس کے سامنے یہ کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وقت کیا ہوا تھا مگر اسے یہ اندازہ تھا کہ آدھی رات سے زیادہ گزر چکی ہے۔ اسے نیچے آنے میں کتنا وقت لگا اور اس نے یہ سفر کس طرح طے کیا۔ وہ نہیں جانتا۔۔۔۔۔ اسے صرف یہ یاد تھا کہ وہ پورے راستے بلند آواز سے روتا رہا تھا۔
اسلام آباد کی سڑکوں پر آ کر اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں بھی اس نے اپنے حلیے کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی کہیں رکنے کی خواہش کی نہ ہی کسی کی مدد لینے کی۔ وہ اسی طرح روتا ہوا لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اس سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر چلتا رہا۔
وہ پولیس کی ایک پٹرولنگ کار کی جس نے سب سے پہلے اسے دیکھا تھا اور اس کے پاس آ کر رک گئی۔ اندر موجود کانسٹیبل اس کے سامنے نیچے اترے اور اسے روک لیا۔ وہ پہلی بار حوش و حواس میں آیا تھا مگر اس وقت بھی وہ اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں پر قابو پانے میں ناکام ہو رہا تھا وہ لوگ اب اس سے کچھ پوچھ رہے تھے، مگر وہ کیا جواب دیتا۔
اگلے پندرہ منٹ میں وہ ایک ہاسپٹل میں تھا جہاں اسے فرسٹ ایڈ دی گئی۔ وہ اس سے اس کے گھر کا پتا پوچھ رہے تھے مگر اس کا گلا بند تھا۔ وہ انہیں کچھ بھی بتانے کے قابل نہیں تھا۔ سوجے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اس نے ایک کاغذ پر اپنے گھر کا فون نمبر اور ایڈریس گھسیٹ دیا۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─