┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_29
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ تم اپنے اپارٹمنٹ پر ہی ہو گے، صرف تم نے جان بوجھ کر answer phone لگا دیا ہو گا۔"
سعد اگلےب دن دس بجے سالار کے اپارٹمنٹ پر موجود تھا۔ سالار نے نیند میں اٹھ کر دروازہ کھولا تھا۔
"تم اس طرح بغیر بتائے بھاگ کیوں آئے میرے اپارٹمنٹ سے۔" سعد نے اندر آتے ہوئے جھاڑا۔
"بھاگا تو نہیں، تم سو رہے تھے، میں نے تمہیں جگانا مناسب نہیں سمجھا۔" سالار نے آنکھیں مسلتے ہوئے کہا۔
"کس وقت آئے تھے تم؟"
"شاید چار پانچ بجے۔"
"یہ جانے کا کون سا وقت تھا؟" سعد نے تنک کر کہا۔
"اور تم اس طرح آئے کیوں؟" سالار کچھ کہنے کے بجائے لونگ روم کے صوفہ پرجا کر اوندھے منہ لیٹ گیا۔
"شاید میری باتوں سے تم ناراض ہو گئے تھے، میں اسی لئےا یکسکیوز کرنے آیا ہوں۔" سعد نے دوسرے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"کون سی باتوں سے؟" سالار نے گردن کو ہلکا سا ترچھا کرتے ہوئے اسی طرح لیٹے سعد سے پوچھا۔
"وہی سب کچھ جو میں نے کچھ غصے میں آ کر رات کو تم سے کہہ دیا۔" سعد نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
"نہیں ، میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو ناراض نہیں ہو سکتا۔ تم نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس پر تمہیں ایکسکیوز کرنے کے لئے یہاں آنا پڑتا۔" سالار نے اسی کے انداز میں کہا۔
"پھر تم اس طرح اچانک میرے اپارٹمنٹ سے کیوں آ گئے؟" سعد بضد ہوا۔
"بس میرا دل گھبرایا اور میں یہاں آ گیا اور چونکہ سونا چاہتا تھا اس لئے answer phone لگا دیا۔"
سالار نے پرسکون انداز میں کہا۔"پھر بھی میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ مجھے تم سے اس طرح سے بات نہیں کرنی چاہئیے تھی۔ میں صبح سے بہت پچھتا رہا ہوں۔"
"جانے دو اسے۔" اس نے اسی طرح چہرہ صوفے پر چھپائے کہا۔
"سالار! تمہارے ساتھ آج کل کیا پرابلم ہے؟"
"کچھ نہیں۔"
"نہیں، کچھ نہ کچھ تو ہے۔ کچھ عجیب سے ہوتے جا رہے ہو تم۔"
اس بار سالار یک دم کروٹ بدلتے ہوئے سیدھا ہو گیا۔ چت لیٹے سعد کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔
"مثلاً کون سی بات عجیب سی ہوتی جا رہی ہے مجھ میں۔"
"بہت ساری ہیں، تم بہت چپ چپ رہنے لگے ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھنے لگے ہو۔ عباد مجھے بتا رہا تھا کہ یونیورسٹی جانا بھی چھوڑا ہوا ہے تم نے اور سب سے بڑی بات کہ مذہب میں دلچسپی لے رہے ہو۔" اس کے آخری جملے سے سالار کے ماتھے پر تیوریاں آ گئیں۔
"مذہب میں دلچسپی؟ یہ تمہیں غلط فہمی ہے۔ میں مذہب میں دلچسپی لینے کی کوشش نہیں کر رہا، میں صرف سکون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ میں بہت ڈپریس ہوں۔ مجھے زندگی میں کبھی اس طرح کا۔۔۔۔۔ اور اس حد تک ڈپریشن نہیں ہوا جس کا شکار میں آج کل ہوں اور میں صرف اس ڈپریشن سے نجات حاصل کرنے کے لئے رات نماز پڑھنے کے لئے گیا تھا۔" اس نے بہت ترشی سے کہا۔
"ڈپریشن کیوں ہے تمہیں؟" سعد نے پوچھا۔
"اگر یہ مجھے پرا ہوتا تو مجھے یقیناً ڈپریشن نہ ہوتا۔ میں اب تک اس کا کچھ نہ کچھ کر چکا ہوتا۔"
"پھر بھی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی، یوں بیٹھے بٹھائے ڈپریشن تو نہیں ہو جاتا۔" سعد نے تبصرہ کیا۔
سالار جانتا تھا، وہ ٹھیک کہہ رہا ہے، مگر اسے وجہ بتا کر خود پر ہنسنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہتا تھا۔
"کسی دوسرے کے بارے میں تو مجھے پتا نہیں، مگر مجھے تو بیٹھے بٹھائے ہی ہو جاتا ہے۔" سالار نے کہا۔
"تم کوئی اینٹی ڈیپریسنٹ لے لیتے۔" سعد نے کہا۔
"میں ان کا ڈھیر کھا چکا ہوں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔"
"تو تم کسی سائیکاٹرسٹ سے مل لیتے۔"
"میں یہ کام تو کبھی نہیں کروں گا، میں تنگ آ چکا ہوں ان لوگوں سے ملتے ملتے۔ کم از کم اب تو میں نہیں ملوں گا۔" سالار نے بے اختیار کہا۔
"پہلے کس سلسلے میں ملتے رہے ہو تم؟" سعد نے کچھ چونک کر تجسس کے عالم میں پوچھا۔" بہت سی باتیں تھیں، تم انہیں رہنے دو۔" وہ اب چت لیٹا چھت کو گھور رہا تھا۔
"تو پھر تم ایسا کیا کرو کہ عبادت کیا کرو، نماز پڑھا کرو۔"
"میں نے کوشش کی تھی مگر میں نماز نہیں پڑھ سکتا نہ تو مجھے وہاں کوئی سکون ملا نہ ہی میں یہ جانتا تھا کہ میں جو پڑھ رہا ہوں وہ کیا ہے، کیوں پڑھ رہا ہوں۔"
"تو تم یہ جاننے کی کوشش کرو کہ۔۔۔۔۔"
سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔" اب پھر رات والی بحث شروع ہو جائے گی، صراطِ مستقیم والی اور پھر تمہیں غصہ آئے گا۔"
"نہیں، مجھے غصہ نہیں آئے گا۔" سعد نے کہا۔
"جب مجھے یہ ہی نہیں پتا کہ صراطِ مستقیم کیا ہے تو پھر میں نماز کیسے پڑھ سکتا ہوں۔"
"تم نماز پڑھنا شروع کرو گے تو تمہیں خود ہی پتا چل جائے گا کہ صراطِ مستقیم کیا ہے۔"
"کیسے؟"
"تم خود ہی غلط کاموں سے بچنے لگو گے، اچھے کام کرنے لگو گے۔" سعد نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
"مگر میں کوئی غلط کام نہیں کرتا اور نہ ہی مجھے اچھے کام کرنے کی خواہش ہے۔ میری زندگی نارمل ہے۔"
"تمہیں یہ احساس ہو بھی نہیں سکتا کہ تمہارا کون سا کام صحیح ہے اور کون سا غلط۔ جب تک کہ۔۔۔۔۔"سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔
"صحیح اور غلط کام میرا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ ابھی تو مجھے بس بے سکونی رہتی ہے اور اس کا تعلق میرے کاموں سے نہیں ہے۔"
"تم وہ تمام کام کرتے ہو جو انسان کی زندگی کو بے سکون کر دیتے ہیں۔"
"مثلاً۔" سالار نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
"تم پورک کھاتے ہو۔"
"کم آن۔" وہ بے اختیار بلبلایا۔" پورک یہاں کہاں آ گیا، تم مجھے ایک بات بتاؤ۔" سالار اٹھ کر بیٹھ گیا۔"تم تو بڑی باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہو، بڑی عبادت کرتے ہو، نماز نے تمہاری زندگی میں کون سی تبدیلیاں کر دیں؟"
"مجھے بے سکونی نہیں ہے۔"
"حالانکہ تمہارے فارمولے کے مطابق تمہیں بھی بے سکونی ہونی چاہئیے، کیونکہ تم بھی بہت سے غلط کام کرتے ہو۔" سالار نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
"مثلاً۔۔۔۔۔ میں کیا غلط کام کرتا ہوں؟"
"تم جانتے ہو، میرے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔"
"میں۔۔۔۔۔ میں نہیں جانتا، تم دہراؤ۔" سعد نے جیسے اسے چیلنج کیا۔
سالار اسے کچھ دیر دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔" میں نہیں سمجھتا سعد کہ صرف عبادت کرنے سے زندگی میں کوئی بہت نمایاں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، اچھے کاموں یا کردار کا تعلق عبادت کرنے یا نہ کرنے سے نہیں ہو تا۔"
سعد نے اس کی بات کاٹ دی۔" میں اسی لئے تم سے کہتا ہوں کہ اپنے مذہب میں کچھ دلچسپی لو اور اسلام کے بارے میں کچھ علم حاصل کرو تاکہ اپنی اس غلط قسم کی فلاسفی اور سوچ کو بدل سکو۔"
"میری سوچ غلط نہیں ہے، میں نےمذہبی لوگوں سے زیادہ چھوٹا، منافق اور دھوکے بار کسی کو نہیں پایا۔ میں امید کرتا ہوں تم برا نہیں مانو گے، مگر میں سچ کہہ رہا ہوں۔ ابھی تک مجھے تین ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا جو بہت مسلمان بنتے ہیں اور اسلام کی بات کرتے ہیں اور تینوں fake(منافق) ہیں۔" وہ بڑی تلخی سے کہہ رہا تھا۔
"سب سے پہلے میں ایک لڑکی سے ملا، وہ بھی بڑی مذہبی بنتی تھی، پردہ کرتی تھی، بڑی پارسا اور پاک باز ہونے کا ڈرامہ کرتی تھی اور ساتھ میں ایک لڑکے کے ساتھ افئیر چلا رہی تھی، اپنے منگیتر کے ہوتے ہوئے اس کے لئے گھر سے بھاگ بھی گئی۔ اسے ضرورت پڑی تو اس نے ایک ایسے شخص کی بھی مدد لی جسے وہ برا سمجھتی تھی یعنی اسے اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھا، ان محترمہ پارسا خاتون نے۔" اس کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ تھی۔
"اس کے بعد میں ایک اور آدمی سے ملا جس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ بڑا پکا اور سچا قسم کا مسلمان تھا وہ بھی لیکن اس نے اس لڑکی کی مدد نہیں کی، جس نے اس سے بھیک مانگنے کی حد تک مدد مانگی تھی۔ اس نے اس لڑکی سے شادی نہیں کی جسے وہ محبت کے نام پر بے وقوف بناتا رہا اور ابھی کچھ عرصہ پہلے میں یہاں امریکہ میں اس سے ملا تو اس کی داڑھی بھی غائب ہو چکی تھی، شاید اس کے اسلام کے ساتھ۔"
وہ ہنسا۔" اور تیسرے تم ہو۔۔۔۔۔ تم پورک نہیں کھاتے صرف یہ ایک حرام کام ہے جو تم نہیں کرتے، باقی سب تمہارے لئے جائز ہے۔ جھوٹ بولنا، شراب پینا، زنا کرنا، کلب میں جانا۔۔۔۔۔ غیبت کرنا، دوسروں کا مذاق اڑانا، حالانکہ ویسے تم بڑے نیک ہو، تم نے داڑھی رکھی ہوئی ہے، تم ہمارا دماغ کھا جاتے ہو اسلام کی باتیں کر کر کے۔ زبردستی نماز پڑھانے پر تلے رہتے ہو، ہر بات میں مذاہب کا حوالہ لے آتے ہو۔ یہ آیت اور وہ حدیث۔۔۔۔۔ وہ آیت اور یہ حدیث۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ تمہاری زبان پر اور کچھ ہوتا ہی نہیں اور جب میں تمہارا عمل دیکھتا ہوں تو میں ذرہ بھر بھی تم سے متاثر نہیں ہوتا۔ کتنا مشکل ہوتا ہے اسلام کے بارے میں تمہارا لیکچر سننا، میں تمہیں بتا نہیں سکتا۔ مجھ میں اور تم میں زیادہ فرق تو نہیں ہے۔ تم داڑھی رکھ کر اور اسلام کر کر کے وہ سارے کام کرتے ہو جو میں ڈارھی کے اور اسلام کی بات کئے بغیر کرتا ہوں۔ عبادت نے کیا انقلاب برپا کیا ہے تمہاری زندگی میں، سوائے اس کے کہ تمہیں ایک خوش فہمی ہو گئی ہے کہ تم تو سیدھے جنت میں جاؤ گے اور ہم سارے دوزخ میں۔ تمہارے قول اور فعل میں اگر یہ تضاد نہ ہو تو میں کبھی تم سے یہ سب نہ کہتا مگر میں ریکویسٹ کرتا ہوں کہ تم دوسروں کو مذہب کی طرف راغب کرنے کی کوشش نہ کیا کرو، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تم خود بھی مذہب کے صحیح مفہوم سے واقف نہیں ہو۔ اب میری ان ساری باتوں کو مائنڈ مت کرنا۔"
سالار اب ٹیبل پر پڑا ایک سگریٹ سلگا رہا تھا۔ سعد تقریباً گونگا ہو گیا تھا۔
"ٹھیک ہے، مجھ سے کچھ غلطیاں ہو جاتی ہیں، مگر اللہ انسان کو معاف کر دیتا ہے اور میں نے کبھی یہ تو نہیں کہا کہ میں بہت ہی اچھا مسلمان ہوں اور میں ضرور جنت میں جاؤں گا لیکن میں اگر ایک اچھا کام کرتا ہوں اور دوسروں کو اس کی ہدایت کرتا ہوں تو یہ اللہ کی طرف سے مجھ پر فرض ہے۔"
سعد نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس سے کہا۔
"سعد! تم خواہ مخواہ دوسروں کی ذمہ داری اپنے سر پر مت لو۔ پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرو، پھر دوسروں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرو تاکہ کوئی تمہیں منافق نہ کہہ سکے اور جہاں تک اللہ کے معاف کر دینے کا تعلق ہے تو اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ تمہاری غلطیوں کو معاف کر سکتا ہے تو پھر وہ ہمیں بھی معاف کر سکتا ہے۔ ہمارے گناہوں کے لئے تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے سے تمہاری نیکیوں میں اضافہ ہو گا اور تم اپنے گناہوں سمیت اللہ کے قریب ہو جاؤ گے تو ایسا نہیں ہو گا۔ بہتر ہے تم اپنا ٹریک ریکارڈ ٹھیک کرو، صرف اپنے آپ کو دیکھو، دوسروں کو نیک بنانے کی کوشش نہ کرو،ہمیں برا ہی رہنے دو۔"
اس نے ترشی سے کہا۔ اس لمحے اس کے دل میں جو آیا اس نے سعد سے کہہ دیا۔ جب وہ خاموش ہوا تو سعد اٹھ کر چلا گیا۔
اس دن کے بعد اس نے دوبارہ کبھی سالار کے سامنے اسلام کی بات نہیں کی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس ویک اینڈ پر بہت دنوں کے بعد کسی ریسٹورنٹ گیا تھا۔ اپنا آرڈر ویٹر کو نوٹ کروانے کے بعد وہ ریسٹورنٹ کے شیشوں سے باہر سڑک کو دیکھنے لگا۔ وہ جس میز پر بیٹھا تھا وہ کھڑکی کے قریب تھی اور قد آدام کھڑکیوں کے شیشوں کے پاس بیٹھ کر اسے یونہی محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ باہر فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوا تھا۔
کسی لڑکی کی سسکیوں نے اس کی محویت کو توڑا تھا، اس نے بے اختیار مڑ کر دیکھا۔ اس سے پچھلی میز پر ایک لڑکا اور لڑکی بیٹھے ہوئے تھے۔ لڑکی کسی بات پر روتے ہوئے سسکیاں لے رہی تھی اور ٹشو کے ساتھ اپنے آنسو پونچھ رہی تھی۔ لڑکا اس کےہاتھ کو تھپتھپاتے ہوئے شاید اسے تسلی دے رہا تھا۔ ریسٹورنٹ اتنا چھوٹا اور ٹیبلز اتنی قریب قریب تھیں کہ وہ بڑی آسانی سے ان کی گفتگو سن سکتا تھا مگر وہ وہاں اس کام کے لئے نہیں آیا تھا، وہ سیدھا ہو گیا۔ ناگواری کی ایک لہر سی اس کے اندر سے اٹھی تھی۔ اسے اس طرح کے تماشے اچھے نہیں لگتے تھے۔ اس کا موڈ خراب ہو رہا تھا، وہ وہاں سکون سے کچھ وقت گزارنے آیا تھا اور یہ سب کچھ۔ اس کا دل اچاٹ ہونے لگا۔ وہ دونوں رشین تھے اور اسی زبان میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا مگر غیر محسوس طور پر اس کی سماعتیں ابھی بھی ان ہی سسکیوں کی طرف مرکوز تھیں۔ اس نے کچھ دیر بعد مڑ کر ایک بار پھر اس لڑکی کو دیکھا۔ اس بار اس کے مڑنے پر لڑکی نے بھی انظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ چند لمحوں کے لئے ان دونوں کی نظریں مل تھیں اور وہ چند لمحے اس پر بہت بھاری گزرے تھے۔ اس کی آنکھیں متورم اور سرخ ہو رہی تھیں۔ اسے یک دم ایک اور چہرہ یاد آیا۔ امامہ ہاشم کا چہرہ، اس کی متورم آنکھیں۔
ویٹر اس کا آرڈر لے کر آ چکا تھا اور وہ اسے سرو کرنے لگا۔ اس نے پانی کے چند گھونٹ پیتے ہوئے اپنے ذہن سے اس چہرے کو جھٹکنے کی کوشش کی۔ اس نے چند گہرے سانس لئے۔ ویٹر نے اپنا کام کرتے کرتے اسے غور سے دیکھا مگر سالار کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔
"آج موسم بہت اچھا ہے اور میں یہاں اچھے لمحے گزارنے آیا ہوں، ایک اچھا کھانا کھانے آیا ہوں، اس کے بعد میں یہاں سے ایک فلم دیکھنے جاؤں گا، مجھے اس لڑکی کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئیے، کسی بھی طرح نہیں۔ وہ پاگل تھی، وہ بکواس کرتی تھی اور مجھے اس کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہیں ہونا چاہئیے۔ مجھے کیا پتا وہ کہاں گئی، کہاں مری، یہ سب اس نے خود کیا تھا۔ میں نے صرف مذاق کیا تھا اس کے ساتھ۔ وہ مجھ سے رابطہ کرتی تو میں اسے طلاق دے دیتا۔"
لاشعوری طور پر خود کو سمجھاتے سمجھاتے ایک بار پھر اس کا پچھتاوا اس کے سامنے آنے لگا تھا۔ پیچھے بیٹی ہوئی لڑکی کی سسکیاں اب اس کے دماغ میں نیزے کی انی کی طرح چبھ رہی تھیں۔
"میں اپنی ٹیبل تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔" اس نے بہت کھردرے انداز میں ویٹر کو مخاطب کیا۔ ویٹر حیران ہو گیا۔
"کس لئے سر؟"
"یا تو ان دونوں کی ٹیبل تبدیل کر دو یا میری۔" اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا۔ ویٹر نے ایک نظر اس جوڑے کو دیکھا پھر وہ سالار کا مسئلہ سمجھا یا نہیں مگر اس نے کونے میں لگی ہوئی ایک ٹیبل پر سالار کو بٹھا دیا۔ سالار کو چند لمحوں کے لئے وہاں آ کر واقعی سکون ملا تھا۔ سسکیوں کی آواز اب وہاں نہیں آ رہی تھی مگر اب اس لڑکی اک چہرہ بالکل اس کے سامنے تھا۔ چالوں کا پہلا چمچ منہ میں ڈالتے ہی اس کی نظر اس لڑکی پر دوبارہ پڑی۔
وہ ایک بار پھر بدمزہ ہو گیا اسے ہر چیز یک دم بے ذائقہ لگنے لگی۔یہ یقیناً اس کی ذہنی کیفیت تھی، ورنہ وہاں کا کھانا بہت اچھا ہوتا تھا۔
"انسان نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا۔ یہ میری زبان پر ذائقہ چکھنے کی حس ہے، یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ میں اگر کوئی چیز کھاتی ہوں تو اس میں اس کا ذائقہ محسوس کر سکتی ہوں۔ اچھا کھانا کھا کر خوشی محسوس کر سکتی ہوں۔ بہت سے لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔"
اس کے کانوں میں ایک آواز گونجی تھی اور یہ شاید انتہا ثابت ہوئی۔ وہ کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا۔ اس نے پوری قوت سے چمچ اپنی پلیٹ میں پٹخا اور بلند آواز میں دھاڑا۔
"شٹ اپ، جسٹ شٹ اپ۔" ریسٹورنٹ میں یک دم خاموشی چھا گئی۔
"یو بچ۔۔۔۔۔ باسٹرڈ، جسٹ شٹ اپ۔" وہ اب اپنی سیٹ سے کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
"تم میرے ذہن سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟"
دونوں کنپٹیوں پر ہاتھ رکھے ہوئے وہ چلایا۔
"میں تمہیں مار ڈالوں گا، اگر تم مجھے دوبارہ نظر آئیں۔"
وہ ایک بار پھر چلایا اور پھر اس نے پانی کا گلاس اٹھا کر پانی پیا اور اس وقت پہلی بار اسے ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگوں، ان کی نظروں کا احسا س ہوا، وہ سب اسے دیکھ رہے تھے۔ ایک ویٹر اس کی طرف آ رہا تھا، اس کے چہرے پر تشویش تھی۔
"آپ کی طبیعت ٹھیک ہے سر!"
سالار نے کچھ بھی کہے بغیر اپنا والٹ نکالا اور چند کرنسی نوٹ ٹیبل پر رکھ دئیے۔ ایک لفظ بھی مزید کہے بغیر وہ ریسٹورنٹ سے نکل گیا۔
وہ امامہ نہیں تھی، ایک بھوت تھا جو اسے چمٹ گیا تھا۔ وہ جہاں جاتا وہ وہاں ہوتی۔ کہیں اس کا چہرہ، کہیں اس کی آواز اور جہاں یہ دونوں چیزیں نہ ہوتیں وہاں سالار کا پچھتاوا ہوتا۔ وہ ایک چیز بھولنے کی کوشش کرتا تو دوسری چیز اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی، بعض دفعہ وہ اتنا مشتعل ہو جاتا کہ اس کا دل چاہتا وہ اسے دوبارہ ملے تو وہ اس کا گلا دبا دے یا اسے شوٹ کر دے۔ اسے اس کی ہر بات سے نفرت تھی۔ اس رات اس کے ساتھ سفر میں گزارے ہوئے چند گھنٹے اس کی پوری زندگی کو تباہ کر رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"مگر آپ کیوں آ رہے ہیں؟" وہ دونوں فون پر بات کر رہے تھے اور اس نے سالار کو چند دنوں بعد نیو ہیون آنے کی اطلاع دی تھی۔ سالار اس قت روٹین کی زندگی گزار رہا ہوتا تو وہ اس اطلاع پر یقیناً خوش ہوتا مگر وہ اس وقت ذہنی ابتری کے جس دور سے گزر رہا تھا اس میں کامران کا آنا اسے بے حد ناگوار گزر رہا تھا اور وہ یہ ناگواری چھپا بھی نہیں سکا۔
"کیا مطلب ہے تمہارا، کیوں آ رہے ہیں۔ تم سے ملنے کے لئے آ رہا ہوں۔" کامران اس کے لہجے پر کچھ حیران ہوا۔" اور پاپا نے بھی کہا ہے کہ میں تم سے ملنے کے لئے جاؤں۔" وہ ہونٹ بھینچے اس کی بات سنتا رہا۔
"تم مجھے ائیر پورٹ سے پک کر لینا، میں تمہیں ایک دن پہلے اپنی فلائٹ کی ٹائمنگ کے بارے میں بتا دوں گا۔"
کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔
چار دن کے بعد اس نے کامران کو ائیر پورٹ سے ریسیو کیا۔ وہ سالار کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
"تم بیمار ہو؟" اس نے چھوٹتے ہی سالار سے پوچھا۔
"نہیں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔" سالار نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"لگ تو نہیں رہے ہو۔" کامران کی تشویش میں کچھ اور اضافہ ہونے لگا۔ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتا تھا، آج خلاف معمول وہ آنکھیں چرا رہا تھا۔
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی وہ بہت غور سے سالار کو دیکھتا رہا۔ وہ بے حدا حتیاط سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ کامران کو حیرانی ہوئی وہ اس قدر ریش ڈرائیو کرتا تھا کہ اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے بڑے سے بڑا جی دار آدمی ڈرتا تھا۔ کامران کو یہ ا یک مثبت تبدیلی لگی تھی مگر یہ واحد مثبت تبدیلی تھی جو اس نے محسوس کی تھی، باقی تبدیلیاں اس کو پریشان کر رہی تھیں۔
"اسٹڈیز کیسی جا رہی ہیں تمہاری؟"
"ٹھیک ہیں۔"
اسے سفر کے دوران بھی اسی طرح کے جواب ملتے رہے تھے۔ یہ اس کے اپارٹمنٹ کی حالت تھی جس نے کامران کے اضطراب کو اتنا بڑھایا تھا کہ وہ کچھ مشتعل ہو گیا تھا۔
"یہ تمہارا اپارٹمنٹ ہے سالار۔۔۔۔۔ مائی گاڈ۔"سالار کے پیچھے اس کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی وہ چلا اٹھا تھا۔ سالار اپنی چیزوں کو جس طرح منظم رکھنے کا عادی تھا وہ نظم و ضبط وہاں نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہاں ہر چیز ابتر حالت میں نظر آ رہی تھی۔ جگہ جگہ اس کے کپڑے، جرابیں اور جوتے بکھرے پڑے تھے۔ کتابوں ، اخباروں اور میگزینز کا بھی یہی حال تھا۔ کچن کی حالت سب سے بری تھی اور باتھ روم کی اس سے بھی زیادہ۔ کامران نے کچھ شاک کی حالت میں پورے اپارٹمنٹ کا جائزہ لیا۔
"کتنے ماہ سے تم نے صفائی نہیں کی ہے؟"
"میں ابھی کر دیتا ہوں۔" سالار نے سردمہری کے عالم میں چیزیں اٹھاتے ہوئے کہا۔
"تم اس طرح رہنے کے عادی تو نہیں تھے اب کیا ہوا ہے؟"کامران بہت پریشان تھا۔ کامران نے اچانک ایک میز پر سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری ایش ٹرے کے پاس جا کر سگریٹ کو ٹکڑوں کو سونگھنا شروع کر دیا۔ سالار نے چبھتی ہوئی تیز نظروں سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا مگر کچھ کہا نہیں۔ کامران نے چند لمحوں کے بعد وہ ایش ٹرے نیچے پٹخ دیا۔
"Salar! What are you up to this time? "
"مجھے صاف صفاف بتاؤ، مسئلہ کیا ہے۔ ڈرگز استعمال کر رہے ہو تم؟"
"نہیں، میں کچھ استعمال نہیں کر رہا۔" اس کے جواب نے کامران کو خاصا مشتعل کر دیا۔ وہ اسے کندھے سے پکڑ کر تقریباً کھینچتے ہوئے باتھ روم کے آئینے کے سامنے لے آیا۔
"شکل دیکھو اپنی، ڈرگ ایڈکٹ والی شکل ہے یا نہیں اور حرکتیں تو بالکل ویسی ہی ہیں۔ دیکھو، نظریں اٹھاؤ اپنی، چہرہ دیکھو اپنا۔"
وہ اب اسے کالر سے کھینچتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ سالار آئینے میں اپنے آپ کو دیکھے بغٖیر بھی جانتا تھا کہ وہ اس وقت کیسا نظر آ رہا ہو گا۔ گہرے حلقوں اور بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ وہ کیسا نظر آ سکتا تھا۔ رہی سہی کسر ان مہاسوں اور ہونٹوں پر جمی ہوئی پٹریوں نے پوری کر دی تھی جو بے تحاشا کافی اور سگریٹ پینے کا نتیجہ تھے۔ مہاسوں کی وجہ سے اس نے روز شیو کرنی بند کر دی تھی۔ کچھ ناراضی کےعالم میں اس نے کامران سے اپنا کالر چھڑایا اور آئینے پر نظریں دوڑائے بغیر باتھ روم سے نکلنے کی کوشش کی۔
"لعنت برس رہی ہے تمہاری شکل پر۔"
لعنت وہ لفظ تھا جو کامران اکثر استعمال کیا کرتا تھا سالار نے پہلے کبھی اس لفظ کو محسوس نہیں کیا تھا مگر اس وقت کامران کے منہ سے یہ جملہ سن کر وہ جیسے بھڑک اٹھا تھا۔
"ہاں، لعنت برس رہی ہے میری شکل پر تو؟" وہ قدرے بھپرے ہوئے انداز میں کامران کے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا۔
"جب میں کہہ رہا ہوں کہ میں ڈرگز نہیں لے رہا تو میں نہیں لے رہا۔ آپ کو میرا یقین کرنا چاہئیے۔"
"تم پر یقین۔۔۔۔۔"
کامران نے طنزیہ لہجے میں اس کے پیچھے باتھ روم سے باہر آتے ہوئے کہا۔ اس نے ہونٹ بھینچ لئے اور کمرے کی چیزیں سمیٹنے کا کام جا ری رکھا۔
"یونیورسٹی جا رہے ہو تم؟" سعد کو اچانک ایک اور اندیشہ ہوا۔
"جا رہا ہوں۔" وہ چیزیں اٹھاتا رہا، کامران کو تسلی نہیں ہوئی۔
"میرے ساتھ ہاسپٹل چلو، میں تمہارا چیک اپ کروانا چاہتا ہوں۔"
"اگر آپ یہ سب کرنے آئے ہیں تو بہتر ہے واپس چلے جائیں میں کوئی کنڈر گارٹن کا بچہ نہیں ہوں۔ میں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں۔" کامران نے اس بار کچھ کہنے کے بجائے اس کے ساتھ مل کر چیزیں اٹھانی شروع کر دیں۔ سالار نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کا خیال تھا کہ اب وہ اس معاملے پر دوبارہ بحث نہیں کرے گا مگر اس کا یہ اندازہ غلط تھا۔ کامران نے اس کے پاس اپنے قیام کو لمبا کر دیا۔ دو تین دن کے بجائے وہ پورا ایک ہفتہ وہاں رہا۔ سالار اس کے قیام کے دوران باقاعدگی سے یونیورسٹی جاتا رہا مگر کامران اس دوران اس کے دوستوں اور پروفیسرز سے ملتا رہا۔ سمسٹر میں فیل ہونے کی خبر بھی اسے سالار کے دوستوں سے ہی ملی تھی اور کامران کے لئے یہ ایک شاک تھا۔ سالار سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی تھی، مگر سمسٹر میں فیل ہونا وہ بھی اس بری طرح سے جبکہ وہ کچھ عرصہ پہلے تک یونیورسٹی کے پچھلے ریکارڈ بریک کرتے ہوئے ٹاپ کر رہا تھا۔
اس بار اس نے سالار سے اس معاملے کو ڈسکس نہیں کیا بلکہ پاکستان سکندر عثمان کو فون کر کے اس سارے معاملے سے آگاہ کر دیا۔ سکندر عثمان کے پیروں تلے سے ایک بار پھر زمین نکل گئی تھی۔ سالار نے اپنا سابقہ ریکارڈ برقرار رکھا تھا۔ وہ ایک ڈیڑھ سال کے بعد ان کے لئے کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا کرتا رہتا تھا اور ہاشم مبین والے معاملے کو بھی اتنا ہی عرصہ ہونے والا تھا۔
"آپ ابھی اس سے اس معاملے پر بات نہ کریں۔ یونیورسٹی میں کچھ چھٹیاں ہونے والی ہیں، آپ اسے پاکستان بلا لیں، کچھ عرصے کے لئے وہاں رکھیں پھر ممی سے کہیں کہ وہ اس کے ساتھ واپسی پر یہاں آ جائیں اور جب تک اس کی تعلیم ختم نہیں ہوتی اس کے ساتھ رہیں۔" کامران نے سکندر عثمان کو سمجھایا۔
سکندر نے اس بار ایسا ہی کیا تھا۔ وہ بغیر بتائے چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے نیو ہیون پہنچ گئے۔
اس کا حلیہ دیکھ کر سکندر عثمان کے پیٹ میں گرہیں پڑنے لگی تھیں مگر انہوں نے کامران کی طرح اس سے بحث نہیں کی۔ انہوں نے اسے اپنے ساتھ پاکستان چلنے کے لئے کہا۔ اس کے احتجاج اور تعلیمی مصروفیات کے بہانے کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے زبردستی اس کی سیٹ بک کرا دی اور اسے پاکستان لے آئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─