نشہ_عشق 🌹
از : حنا 
قسط 13

گھر آتے آتے دونوں کو بارہ بج گئے تھے 
آبیان نے عنایہ کو پھول اور گجرے دیے تھے آبیان کو پتا تھا اسے گجرے بہت پسند ہیں اس لئے وہ ہمیشہ اس کے لئے گجرے لے کر آتا ہے 
عنایہ ہمیشہ گجروں کو دیکھ کر مہک جاتی تھی ہر طرح کے پھول اس گجرے میں ہوتے تھے اور آبیان اسکو دیکھ کر مہک جاتا تھا 
آبیان کمرے میں آکر چنج کرنے چلا گیا 
"کیسے بتاؤ"
عنایہ بیڈ۔ پر بیٹھے اپنا اسکاف اتارتے ہوئے سوچنے لگی 
تھوڑی دیر بعد آبیان بلیک ٹراوزر اور بلیک ہی شرٹ پہنے فریش سا باہر نکلا 
"تم کرلو چنج"
آبیان اسے بیڈ پر بیٹھے دیکھ کہنے لگا 
"جی"
عنایہ کپڑے اٹھا کر واشروم چلی گئی 
سادہ سا لون کا سوٹ پہنے بےبی پنک کلر کا فروک پہنے باہر آئی
آبیان کو دیکھا تو وہ لیپ ٹاپ کھول کر ٹائپنگ کر رہا تھا 
"سنیں"
عنایہ نے آہستہ سی آواز دی 
آبیان کی نظر عنایہ پر پڑی تو آبیان شریر سا مسکرا کر عنایہ کی طرف بڑھا 
"بولیں"
آبیان عنایہ کواپنی طرف کھینچ کر عنایہ کے چہرے کو دیکھتا ہوا بولا 
"مج مجھے کچ کچھ بات کر کرنی ہے"
عنایہ گھبراہٹ میں ہکلاتے ہوئے بولی 
"ایسی کیا بات کرنی ہے جس سی تم ہکلا رہی ہو"
آبیان ابھی بھی اسکے حسن میں کھوے ہوئے کہنے لگا 
"آپ بیٹھیں مجھے کچھ بتانا ہے"
آبیان کو نرمی سی بات کرتے دیکھ عنایہ کی ہمت بڑھی
"چلو بیٹھ گیا"
آبیان عنایہ کو چھوڑتے ہویے بیڈ پر بیٹھ گیا 
آبیان کو لگا کوئی معمولی بات ہوگی اس لئے اتنا آرام سی بات کر رہا تھا پر اسے کیا پتا ابھی اسکے سر پر بم پھٹنے والا ہے 
"آپ مجھ سی وعدہ کریں آپ غصہ نہیں ہونگے" 
عنایہ آبیان کے سامنے پر بیٹھ کر آبیان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی 
"ایسی کیا بات ہے عنایہ" 
آبیان کو اب تشویش ہورہی تھی 
"آپ پہلے وعدہ کریں"
عنایہ اپنی بات پر زور دیتی ہوئی بولی 
"اچھا ٹھیک ہے نہیں کرونگا تم پر غصہ اب بتاؤ کیا بات ہے"
آبیان اسکے ہاتھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا 
"وہ اصل میں مجھے کوئی بیماری نہیں ہے"
عنایہ آنکھیں بند کرکے جلدی میں بولی 
"کیا مطلب ہے"
آبیان اسکو حیرت سے دیکھ رہا تھا 
"مطلب سعد بھائی اور میں نے جھوٹ بولا تھا آپ کو سیدھے راستے پر لانے کے لئے"
عنایہ اپنا مقصد بتاے بغیر بولی کہیں یہ سن کر اسنے میرا قتل کردینا ہے پر اب تو وہ مقصد تھا ہی نہیں تو بتانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا 
"تمہارا دماغ سہی ہے تم " آبیان ایک جھٹکے سے کھڑا ہوا
"ہم صرف آپ کو سہی راستے پر لانا چاہتے تھے بس"
آبیان کو غصے میں آتا دیکھ عنایہ نے کھڑے ہوتے ہوئے وضاحت کی 
"مائے فوٹ تمھیں پتا بھی ہے تمہاری بیماری کا سن کر میرا چین چلا گیا جب جب خیال آتا تھا تب تب میں کتنا بےچین ہوتا ہوجاتا تھا تمھیں کچھ اندازہ ہے دن رات مرتا رہا تمہارے لیے روتا۔۔۔۔۔"
آبیان عنایہ کے دونوں بازو سختی سی پکڑ کر تیش کے عالم میں بولا 
عنایہ کو آبیان کی انگلیاں پنے بازو پر گھستی ہوئی محسوس ہورہی تھی 
درد کی وجہ سے عنایہ کے آنکھوں میں آنسوں آگئے تھے 
"مجھے درد ہورہا ہے"
عنایہ آبیان کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی 
آبیان اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھتے ہوئے عنایہ کو چھوڑ دیا 
اور ڈریسنگ کے شیشے پر جا کر زور سے مقہ مارا 
جسکی وجہ سے ڈریسنگ کا شیشہ ٹوٹ گیا اور آبیان کا ہاتھ زخمی کر گیا 
آبیان کے ہاتھوں سے خون بہتا دیکھ عنایہ فورن آبیان کے پاس آئی
"آپکا ہاتھ.."
عنایہ روتے ہوئے بولی 
عنایہ آبیان کا ہاتھ پکڑنے والی تھی کہ آبیان نے جھرک دیا 
"جاؤ یہاں سے"
آبیان نے آہستہ سے کہا 
جیسے اپنے غصے کو کنٹرول کر رہا ہو 
"آپ پہلے اپنا ہاتھ دیکھا دیں "
عنایہ روتے ہوئے آبیان سے فریاد کرنے لگی 
"میں نے کہا جاؤ یہاں سے"
آبیان دھارتا ہوا بولا 
عنایہ اسکی آواز سے ڈر کر دو قدم پیچھے گئی 
"آئ سیڈ گیٹ اوٹ"
آبیان تیش میں بولا 
عنایہ ڈر کر باہر چلی گئی روتے ہویے وہ سڑیوں پر بیٹھ گئی اور چہرے پر ہاتھ رکھ کر زارو قطار روی 
*****
"تم نے ایسا کیوں کیا عنایہ"
آبیان کی آنکھوں سے ایک آنسو گھرا 
آبیان روم میں زمین پر بیٹھتا ہوا بولا 
آبیان تھوڑی دیر وہی بیٹھ کر روم سے باہر آگیا 
باہر آیا تو دیکھا عنایہ سیڑیوں پر بیٹھی بہت رو رہی تھی 
آبیان کے دل کو کچھ ہوا وہ اسکے پاس گیا 
"دوسرے روم میں جاؤ ہمارے روم میں ہر جگہ کانچ ہے"
آبیان عنایہ کے پاس کھڑے کھڑے بولا البتہ اسکی آنکھیں حد سے زیادہ سرخ ہورہی تھی 
عنایہ نے اسکی آواز سن کر فوراً گردن ہاں میں ہلائی 
"آبیان"
عنایہ اسکو آواز دینے لگی کہ آبیان سیڑیاں اترتے ہوئے اسکی آواز کو نظر انداز کرتے ہوے باہر چلا گیا 
عنایہ اداس سی آبیان کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی 
وہ چلا گیا تو سست قدم سے دوسرے کمرے میں چلی گئی 
*****
آبیان سیدھا سعد کے ہسپتال گیا 
آج سعد نائٹ ڈیوٹی پر تھا اس لئے وہ اسے ہسپتال میں ہی مل گیا یا شاید یوں کہنا ٹھیک رہیگا کے سعد کے نصیب میں آبیان کے ہاتھ کی مار لکھی تھی 
وہاں جا کر سیدھا سعد کے کیبن گیا اور ڈائریکٹ اسکے منہ پر مقہ مارا بنا اسکو سمبھلنے کا موقع دیے برسات جاری رکھی
اسکے کیبن میں کوئی پیشنٹ نہیں تھا وہ اکیلا بیٹھا تھا ورنہ اسکی عزت کا جنازہ سب بیٹھے دیکھتے
آبیان کے مُقے نے اسکا دماغ گھوما دیا تھا ناک سے خون بہ رہا تھا 
"تونے مجھ سے جھوٹ کہا سب سے زیادہ تجھ پر بھروسہ کیا اور تو نے کیا کیا"
آبیان اسکو مارتے ہوئے بول رہا تھا 
"یار تو میری بات تو سن"
سعد اسکو روکتا ہوا بولا 
"کیا سنو میں ہاں کیا سنو"
آبیان اپنا ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولا 
"تو بیٹھ یہاں"
سعد اپنے ناک سے خون صاف کرتے ہوئے بولا 
"کوئی اور ایسی حرکت کرتا تو میں اسے زندہ زمین میں گاڑ دیتا"
آبیان کا غصہ کسی صورت کم نہیں ہورہا تھا 
"ہم نے تیرے بھلے کے لئے ہی سب کیا تھا ہمارا کیا فائدہ تھا اس میں ہمیں تو بدلے میں مار ہی ملی ہے"
سعد ناک پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا 
"پر وہ میری جان تھی کیسے اتنی بڑی بیماری بتا دی تم لوگوں کو یہ کھیل لگ رہا تھا"
آبیان سعد پر چیختے ہوئے بولا 
"تو نے بھابی پر تو ہاتھ نہیں اٹھایا نا"
سعد کو خطرے کی گھنٹی بجتی ہوئی محسوس ہوئی تو فوراً کہا 
"میں اس پر ہاتھ اٹھا سکتا ہوں؟"
آبیان ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے غصّے سے بولا 
"ارے تجھے تو لگا ہے"
سعد اسکا ہاتھ دیکھتے ہوئے بولا 
"بار میں گیا ہاتھ عجیب تماشا لگایا ہوا ہے"
آبیان اپنا ہاتھ دیکھ کر اکتاے ہوئے لہجے میں بولا 
"تیرا ہسپتال میں نے بند کروا دینا ہے اب"
آبیان سعد کو دیکھتے ہوئے بولا 
"اوہ بھائی نا کر یار میرے ہسپتال کو بخش دے میں نے بہت محنت سے سب کیا ہے تو کوئی اور سزا دے دے"
سعد کو تو جھٹکا ہی لگ گیا تھا یہ سن کر تو فوراً بولا
"تونے میرے ساتھ اتنا سب کچھ کیا میں تیرے ساتھ اتنا سا نہیں کر سکتا یہ تو نا انصافی ہوگی"
آبیان آنکھوں میں تیش لاے کہنے لگا 
کرسی کو دھکا دیتے ہوئے باہر چلا گیا 
پیچھے سے سعد اسکو آوازیں ہی دیتا رہ گیا 
____________
رات کے دو بجے آبیان گھر پر آیا 
آبیان کی خود کی حالت بگڑی ہوئی تھی بار بار عنایہ کے الفاظ یاد آرہے تھے 
آبیان نے کمرے میں قدم رکھا تو دیکھا ہر جگہ کانچ پھیلا ہوا تھا آبیان کو یاد آیا کہ اسنے عنایہ کو دوسرے کمرے میں جانے کا بولا تھا
آبیان نے دوسرے کمرے کا رخ کیا اسکے ہاتھ پر خون جم گیا تھا بنا اپنے ہاتھ کو دیکھے دوسرے کمرے میں گیا 
جیسے کمرے کے اندر آیا عنایہ اسے زمین پر بھیٹھی بیڈ کے کورنر سے ٹیک لگاے نیند کی وادیوں میں تھی 
آبیان چلتے ہویے اسکے پاس آیا 
دو زانو بیٹھ کر عنایہ کے چہرے کو بغور دیکھا 
عنایہ کے گال پر آنسو کے نشان تھے اور آنکھیں سوجھی ہوئی تھی 
آبیان نے آہستہ سے عنایہ کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا جیسے وہ اسکی آنکھوں کے سارے موتی چن لینا چاہتا ہو 
"مجھے کوئی بیماری نہیں ہے"
آبیان اسکی آنکھوں پر اپنے لب رکھنے والا تھا کہ اسکے کانو میں عنایہ کی آواز گونجی 
آبیان جھٹکے سے پیچھے ہوا اور زمین سے کھڑا ہوا 
"عنایہ اٹھو بیڈ پر جاؤ"
آبیان بنا اسکی طرف دیکھے کہنے لگا 
عنایہ جو نیند کی وادیوں میں تھی آبیان کی آواز سن کر ہڑبڑا کر اٹھی 
"جی"
عنایہ اپنی سرخ آنکھیں آبیان کے چہرے پر ڈالتی ہوئی بولی 
"بیڈ پر جاؤ"
آبیان اپنی بات دھوراتا ہوا بولا اور بیڈ کے۔ دوسرے سائیڈ جا کر بیٹھ گیا 
عنایہ اٹھ کر بیڈ پر بیٹھی تو نظر آبیان کے ہاتھ پر پڑی جو لال ہورہا تھا اور خون بہت جم گیا تھا 
"آبیان میری ایک بات مان لیں پلیز"
عنایہ آبیان سے التجا کرتی ہوئی بولی 
"میں نے کہا مجھ سے بات کرو"
آبیان اپنے ضبط کرتے ہونٹوں سے بولا 
"پلیز ایک بار سن لیں"
عنایہ اسکی بات نظر انداز کرتی ہوئی بولی 
"میں نے کیا کہا ابھی"
آبیان غصے سے پر آہستہ آواز میں بولا 
"نہیں آپ نے نہیں کہا مجھ سے بات کرو"
عنایہ اپنے آنسو روکتی ہوئی بولی 
"ہمم"
آبیان کہ کر بیڈ کراوئن سے ٹیک لگاتے ہویے بولا اور آنکھیں مند گیا شاید وہ تھوڑا سکون چاہتا تھا 
عنایہ دبے قدموں سے اسکی طرف بڑھی ڈرا سے ٹیوب اور روی نکالی اور بیڈ پر اسکی طرف منہ کرکے بیٹھ گئی ڈر بھی تھا کہی کچھ کر ہی نا دیں 
آبیان کو سب سمجھ آرہا تھا وہ کیا کرنے والی ہے 
عنایہ نے آہستہ سے اسکا ہاتھ پکڑا 
وہ جانتی تھی کہ آبیان جاگ رہا ہے بس تھوڑی سی کوشش کر رہی تھی اور درد بھی ہورہا تھا آبیان کا ہاتھ دیکھ دیکھ کر 
عنایہ نے آبیان کا ہاتھ پکڑا تو آبیان نے اپنا ہاتھ چھوڑانا چاہا 
"پلیز نہیں کرے مجھے بھی تو تھوڑا حق جاتانے دیں"
عنایہ نے روتے ہویے بہت پیار سے۔ بولا 
آبیان اسکا چہرہ دیکھ کر اور اسکے لفظوں کی میٹھاس سن کر اپنا ہاتھ نا ہٹا سکا 
عنایہ نے آبیان کے ہاتھوں کو صاف کرکے اس پر ٹیوب لگائی 
عنایہ ٹیوب کم اور فوک زیادہ مار رہی تھی اور ٹیوب لگاتے ہویے بار بار آبیان کو دیکھ رہی تھی کہ آبیان کو درد تو نہیں ہورہا پر آبیان کے چہرے پر کوئی بھی بادلااو نا تھا وہ سپاٹ چہرے سے عنایہ کو دیکھ رہا تھا 
آبیان کو اسکی ادا پر ٹوٹ کر پیار آیا لیکن وہ ضبط کر رہا تھا اب غلطی کی ہے تو سزا بھی تو ملے گی 
"بس ہوگیا میں سورہا ہو تم بھی سوجاؤ"
آبیان اپنا ہاتھ عنایہ کے ہاتھوں سے نکالتا ہوا بولا 
عنایہ اداس سی اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی جہاں کچھ دیر پہلے آبیان کے ہاتھ تھے 
آبیان نے سائیڈ سے لائٹ اف کی تو مجبورن عنایہ کو لیٹنا پڑا 
کچھ دیر عنایہ چت کو گھورتی رہی 
آبیان سیدھا سو رہا تھا عنایہ جھک کر دیکھنے لگی کہ وہ سویا ہے یا نہیں 
عنایہ نے آبیان کو فنگر سے ٹچ کیا کہ وہ ہلتا ہے یا نہیں جب کوئی موومنٹ نہیں ہوئی تو عنایہ کو لگا کہ آبیان سو گیا ہے 
"کتنا غصہ کرتے ہے"
کچھ دیر آبیان کو دیکھ عنایہ نے کر دل میں سوچا اور آبیان کے سینے سے جا لگی
عنایہ کو سکون ہی وہاں ملتا تھا وہ کیسے تکیے پر سو سکتی تھی 
عنایہ نے آبیان کا ہاتھ آرام سے پکڑا جو زخمی تھا آہستہ آہستہ عنایہ اسکا ہاتھ سہلا رہی تھی تاکہ آبیان کو سکون پوچھے 
عنایہ کا سارے جہاں کا سکون ہی آبیان کی باہوں میں تھا 
عنایہ۔ کو جلد ہی نیند آگئی تھی 
اور عنایہ۔ کو سوتا دیکھ آبیان کی مسکراہٹ گہری ہوئی 
*****
آبش حسن کے روم میں بیٹھی تھی پورا روم بہت اچھا ساجايا گیا تھا ہر طرف پھول ور پتیہ بہت۔ مہارت سے سیٹ کیا ہوا تھا اور بیڈ پر بہت خوبصورت سی سیج سجای گئی تھی 
آبش کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ان سب چیزوں کو دیکھ کر اور انے والے لمحات کو سوچ کر 
آبش بیڈ پر بیٹھی اپنے ہاتھوں کو مسل رہی تھی کہ روم کا دروازہ کھلا حسن اپنے وجیہہ انداز میں اندر آیا 
آبش کی تو نظریں ہی نہیں اٹھ رہی تھی 
حسن مردانہ چال چلتا ہوا آبش کے سامنے بیٹھا  
"میں جانتا ہو سب بہت جلدی ہوا ہے میں بھی چاہتا تھا تم مینٹلی پریپیر ہوجاؤ میری جاب کا مسلہ تھا ورنہ میں کبھی تمہارے گھر والوں کو جلدی شادی کرنے کا نہیں کہتا "
تھوڑی خاموشی کے بعد حسن نے اسکے چہرے پر گور کرتے ہویے کہا 
"جی"
آبش کو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے 
"اتنی بڑی بات کا صرف اتنا سا جواب"
حسن صرف سوچ کر ہی رہ گیا 
"تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو جب تمھیں پہلی بار دیکھا تھا تو اپنا دل ہار بیٹھا تھا بہت۔ سمجھایا اس دل کو لیکن یہ کسی کی سنتا ہی نہیں ہے"
حسن اسکے دل کش سراپے کو دیکھتے ہویے بولا 
آبش اپنی تعریف پر دل سے خوش ہوئی لیکن کچھ بولا نہیں 
 اچھا چلو سہی ہے تم چنج کرلو اور ہاں تم جتنا ٹائم چاہے لے لو لیکن چلنا تمھیں میرے ہم قدم ہی ہوگا"
حسن اسکو کونفوس دیکھتے ہویے بولا اور آخر میں اپنا حق جتانا نا بھولا
آبش صرف ہلا کر ہی رہ گئی اور واشروم میں جا کر چنج کرنے چلی گئی 
آبش خود مطمئن تھی اس رشتے سے لیکن جھجھک اور شرم نے کچھ بولنے ہی نا دیا 
چنج کرکے ای تو لان کا سادہ سا فرن کلر کا سوٹ ہم رنگ دوپٹہ سر پر رکھا ہوا تھا 
حسن نے سوچ لیا تھا کہ جب تک وہ خود سے رضامند نہیں ہوگی وہ اسے کچھ بھی نہیں کہے گا 
آبش واشروم سے باہر ای تو حسن بیڈ پر لیٹے پاؤ پر پاؤ چڑھاے موبائل استعمال کر رہا تھا 
حسن نے آبش کو دیکھ کر بہت مشکل سے اپنی نظریں ہٹائی 
محرم کی محبت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ خود ہی اپنی طرف کھچتی ہے 
اللّه نے نکاح کا رشتہ بنایا ہی ایسا ہے کہ خودی ایک دوسرے سے۔ محبت ہو جاتی ہے 
"تم یہاں سوجاؤ میں صوفے پر سوجاؤ گا"
حسن اٹھ کر اپن تکیہ اور چادر اٹھاتے ہویے بولا 
آبش چپ کرکے لیٹ گئی اور خود پر کمبل ڈال لیا 
حسن صوفے پر سونے کی کوشش کرنے لگا اسکو عادت نہیں تھی اس طرح سونے کی نیند تو ویسے بھی نہیں آرہی تھی اور پھر بیڈ سے سیدھا صوفے پر آگیا تو اب نیند آنا مشکل ہی ہوگیا تھا 
"آپ ادھر آجاے میں صوفے پر سو جاتی ہو"
آبش حسن کو بار بار کروٹ بدلتے دیکھتی ہوئی بولی 
آبش کو اندازہ تھا کہ وہ سہی سے نہیں سو پارہا 
"نہیں سہی ہے تم آرام سے سو"
حسن نے پیار بھرے لہجے میں کہا 
تھوڑی دیر یوہی گزرنے کے بعد بھی حسن نے اپنی کروٹیں بدلنا بند نہیں کی تو آبش کو اٹھن پڑا 
"آپ بیڈ کے دوسرے سائیڈ سو جائے مجھے کوئی مسلہ نہیں ہے"
آبش کو بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ اس طرح بے آرام ہورہا ہے 
اور یہ سن کر تو حسن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا وہ تو اپنا۔ تکیہ چادر پکڑ کر۔ فورن برابر میں آگیا 
اور آبش دوسرے سائیڈ منہ کرکے لیٹ گئی 
"رشتے تو قائم رہتے ہی ہے"
"کبھی قدم سے تو کبھی زخم سے"
❤❤❤
صبح عنایہ کی آنکھ کھلی تو برابر والی جگہ خالی تھی چہرہ گھوما کر کمرے کو دیکھا تو آبیان ڈریسنگ کے سامنے بلیک پنٹ کوٹ میں نک سک سا تیار بالوں کو آخری ٹچ دے رہا تھا 
عنایہ اپنی مندی مندی آنکھوں سے آبیان کو دیکھ رہی تھی جو اب پرفیوم چڑھک رہا تھا 
آبیان عنایہ کو شیشے میں دیکھ چکا تھا
لیکن پھر بھی مخاطب کرنا ضروری نہیں سمجھا وہ اسکو اگنور کرنا چاہتا تھا لیکن نہیں کر پتا تھا 
"آبیان"
عنایہ نے آہستہ آواز میں بلایا 
"بولو"
آبیان نے روکھے پن سے کہا 
"معاف کردو"
عنایہ دوبارہ رونے کی تیاری میں تھی 
"اب مجھے تمہارے یہ آنسو نظر نا اے"
آبیان گردن گھوما کر آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہویے بولا 
"پھر معاف کردو"
عنایہ نے اتنی پیار سے کہا کہ آبیان کی ہسی چھوٹ گئی پر مہارت سے آبیان نے ضبط کیا 
"اٹھو اور ناشتہ کرو"
آبیان روب سے کہتا ہوا اپنی گھڑی پہنے لگا 
"آپ کہا جارہے ہے"
آبیان کی تھوڑی کیئر سے عنایہ کو حوصلہ ہوا ٹوہ اسنے پوچھا 
"میں نے کہا تم سے کہ مجھ سے پوچھو"
آبیان کھڑے تیور سے۔ بولا 
"و وہ می میں نے ایسے ہی پوچھا"
عنایہ نے اسکا روب دیکھتے ہویے اٹک کر کہا 
"آیندہ مجھ سے مخاطب مت ہونا"
آبیان غصے سے کہتے ہویے روم سے باہر جانے لگا 
"کیوں مخاطب نا ہو بیوی ہو تمہاری"
عنایہ کے اندر پتا نہیں کہا سے ہمت ای کہ وہ بول پڑی
آبیان اسکی آواز سن کر پلٹا اور اسکے بے حد قریب آیا اور اسکی کمر پر ہاتھ ڈال کر اسکو اپنی طرف کھیچا جس سے عنایہ نے سر جھکا لیا 
"جب یہ سب کر رہی تھی تب تمھیں یاد نہیں تھا"
آبیان اپنی انگلی سے عنایہ کی تھوڑی پکڑ کر سر ۔ انچا کرتے ہویے بولا 
"ای ایم سوری"
عنایہ انکھو میں نمی لاے کہنے لگی 
مجھے تم روتی ہوئی بلکل بھی اچھی نہیں لگتی ہو یہ آنسو اپنے بھائی سعد کے لئے بچا کر رکھنا"
آبیان نے کہ کر عنایہ کو چھوڑ دیا اور باہر چلا گیا 
عنایہ سوچ میں پر گئی کہ وہ سعد کے ساتھ کیا کرنے والا ہے 
*****
صبح آبش کی آنکھ کھلی تو خود کو حسن کی اغوش میں پایا 
آبش تو گھبرا ہی گئی حسن کو اپنے اتنا پاس پا کر 
حسن ابھی سو رہا تھا اسکی گرم سانسیں آبش کو اپنی گردن پر محسوس ہورہی تھی وہ اس سے اتنا قریب تھا آبش کو ایسے لے۔ کر سورہا تھا کہ آبش کا ہلنا بھی مشکل ہوگیا تھا 
آبش حسن کا ہاتھ ہٹانے لگی تو ہلنے کی وجہ سے حسن کی آنکھ کھل گئی 
"سوری سوری مجھے اندازہ نہیں تھا میں کب تمہارے پاس آیا"
حسن معذرت کرتا ہوا پیچھے ہٹتے ہویے بولا 
اور حسن کے جاگنے پر آبش کو شرمندگی نے گھیرا کہ اسکی وجہ سے حسن اٹھ گیا 
آبش حسن کے اٹھنے سے پزل ہورہی تھی 
"کیا اٹھنے کا دل نہیں ہے"
حسن جو اسکو لیٹے دیکھ کر شرارت سے۔ بولا 
"نہیں ایسی بات نہیں ہے"
آبش جلدی سے۔ اٹھ گئی 
"ارے لیٹی رہو میں مذاق کر رہا تھا"
حسن اسکی جلد بازی دیکھ کر بولا 
"نہیں میں ٹھیک ہو"
آبش آہستہ آواز میں کہتی ہوئی کپڑے نکال کر واشروم گھس گئی 
آبش شاور لے۔ کر باہر ای سمپل سی پنک کلر کی شورٹ شرٹ میں فورن کلر کا غرارہ اور پنک ہی کلر۔ کا دوپٹہ پہنے نکھرے نکھرے سے چہرے۔ میں کوئی پری لگ رہی تھی 
حسن کی تو نظر ہی نہیں ہٹ رہی تھی وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی کہ نظر ہٹانا مشکل ہورہا تھا 
حسن چلتے ہویے بلکل آبش کے سامنے آیا
آبش اسکو دیکھ کر ویسے ہی کنفیوز تھی اسکو اپنی طرف اتا دیکھ ہاتھوں سے تولیہ چھوٹ گیا 
حسن اسکے قریب آتے ہویے جھک کر تولیہ اٹھایا اور دونو سائیڈ سے پکڑ کر آبش کی کمر کی طرف گھیرا ڈالا اور ایک جھٹکے سے اپنی طرف کھیچا 
"تم میرا صبر آزما رہی ہو"
حسن اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہویے بولا 
آبش تو اسکے لفظ سن کر شاک میں ہی تھی 
"پلیز"
حسن اسکے اوپر جھکنے لگا تو آبش کہتی ہوئی دهور ہوئی 
آبش اس سب کے لئے ابھی تیار نا تھی 
"ای ایم سوری"
حسن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو معذرت کرنے لگا 
حسن کو اندازہ ہورہا تھا کہ وہ بہت جلدی کر رہا ہے آبش کو تھوڑا ٹائم دینا چاہیے اس لئے حسن نے فورن معذرت کرلی
"یہ انکا حق ہے میں کیسے روک سکتی ہو لیکن یہ بہت جلدی ہے" 
آبش نظریں جھکاے کھڑی سوچ رہی تھی 
"آپ مجھے تھوڑا وقت دیں"
آبش اپنی انگلیاں مروڑتی ہوئی سر جھکاے کہنے لگی جیسے کوئی جرم کیا ہو 
"کوئی زبردستی نہیں ہے جب تم دل سے اس رشتے کو مانو تب میرے پاس کھلے دل سے آنا یہ بندہ تمہارے لئے حاضر ہے"
حسن شراتی لہجے میں بولا 
"جی"
آبش بس اتنا ہی کہ سکی 
"اوہ ہاں یاد آیا تمہاری منہ دیکھای تو دی ہی نہیں"
حسن ڈرا سے ایک مخملی ڈبا نکالتے ہویے بولا 
اور اسکے سامنے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہویے ڈبا دیا 
"یہ لو"
"اسمے کیا ہے"
آبش ڈبا ہاتھ میں لیتی ہوئی بولی 
"تم خود دیکھ لو"
حسن کہتا ہوا ڈریسنگ کے سامنے بال بنانے لگا 
"یہ تو بہت خوبصورت ہے"
آبش کگن دیکھ کر مہبوت سی بولی 
"تم سے کم"
حسن آبش کو دیکھتا ہوا بولا 
"میں پہنا دوں"
حسن اسکے سامنے آتے ہویے کہنے لگا 
آبش نے ڈبا اسکی طرف بڑھا دیا جیسے اجازت دی ہو 
حسن اسکی حرکت پر دل سے مسکرایا 
حسن نے ڈبے سے کگن نکال کر آبش کی مخملی گوری
کلائی میں ڈالے اور پھر دوسرے ہاتھ میں پہناے
آبش کو یہ کگن بہت پسند اے تھے وہ بار بار اپنے ہاتھ کو ہی دیکھ رہی تھی 
"تھنک یو"
آبش خوش ہوتے ہویے کہنے لگی 
یور ویلکم سویٹی 
حسن اسکو خوش دیکھتا ہوا بولا 
آبش جہنپ سی گئی اسکے نیے نام سے بلانے پر 
"چلے سب ہمارا انتظار کر رہے ہوگے"
حسن اسکی جھینپ مٹانے کے لئے بولا 
"جی چلے"
اور وہ دونو پہلی صبح ایک ساتھ تھے.

جاری ہے