نشہ_عشق 🌹
از : حنا 
قسط 11

"یہ کیا کرہے ہو"
عنایہ تو گھبرا ہی گئی اسکے عمل پر 
"میں نے تمھیں آج تک کچھ کیا ہے بغیر تمہاری مرضی کے جو اب کرونگا جب تک تم خود راضی نہیں ہوگی تب تک میں تمہارے ساتھ کچھ نہیں کرونگا بس تھوڑا سکون چاہتا ہوں وہ مل سکتا ہے"
آبیان عنایہ کو تفصیل بتاتے ہوئے عنایہ کی طرف دیکھتے ہوئے اجازت لینے لگا 
عنایہ نے دھیرے سے سر ہاں میں ہلایا 
آبیان عنایہ کا ہاں دیکھ کر مسکرایا اور عنایہ کے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر آنکھیں بند کرلی 
آج پہلی بار آبیان کو سکون آیا تھا آج اسکی جان اسکے پاس تھی اور خوش تھی آبیان جلد ہی سوگیا تھا 
عنایہ نے دیکھا کہ آبیان سو گیا ہے تو عنایہ بے خیالی میں آبیان کا چہرہ دیکھ رہی تھی تیکھی ناک گلابی ہونٹ غصے کا شبہ بھی نہ تھا اور جاگتے ہویے تو ناک پر رہتا ہے یہ سوچتے ہی چہرے پر مسکان آئ اور دھیرے سے اپنے ہونٹ آبیان کے ماتھے پر رکھے 
"نکھری لے ہیرو"
عنایہ کہتے ساتھ مسکرای پھر اپنے ہاتھوں پر نگاہ گئی اپنے ہاتھ آبیان کے ہاتھوں میں قید دیکھے عنایہ نے دھیرے دھیرے نکالنے کی کوشش کی کہ کہیں اٹھ نہ جائے لیکن نہیں نکال پائی تھوڑی کوشش کے بعد بھی نہ ہوا تو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند گئی
******
آبیان کی آنکھ کھلی تو عنایہ کو بیڈ کراؤن سے سوتا پایا 
عنایہ کو دیکھ کر آبیان کو شرمندگی نے آن گھیرا 
"میں کیسے سوگیا"
آبیان خود کو کوس رہا تھا 
"عنایہ"
آبیان عنایہ کو آواز دینے لگا 
"اٹھ جاؤ سہی سے سوجاؤ گردن اٹک گئی ہوگی تمہاری"
آبیان عنایہ کا کندھا ہلاتے ہوئے بولا 
عنایہ نیند سے بوجھل ہوتی آنکھوں کو کھول کر آبیان کو دیکھنے لگی 
"تم مجھے اٹھا دیتی"
آبیان اسکو اٹھانے میں مدد کرنے لگا کیوں کہ عنایہ کی پوری کمر گردن اکڑ گئی تھی 
"تم سورہے تھے کیسے اٹھاتی"
عنایہ درد سے بولی 
"روکو میں بام لاتا ہوں گردن پر لگا لو بہتر ہوگا"
آبیان اٹھتے ہوئے بولا اور ڈراز سے بام نکالنے لگا 
"میں لگادوں"
آبیان نے عنایہ سے پوچھنا ضروری سمجھا 
عنایہ پہلے تو ہچکچای پھر ہاں میں سر ہلایا 
آبیان نے عنایہ کے بال ہٹائے تو اسکی نظر اس سرائی دار گردن پر گئی وہ بےخیالی میں اپنی انگلی اسکی گردن پر پھیرنے لگا عنایہ نے تیز ہوتی دھڑکنوں سے بیڈ شیٹ مٹھی میں جاکر اسکا تنفس بگڑ رہا تھا۔۔ یہ لمس... اسے اچھا لگ رہا تھا آبیان بھی کوئی فرشتہ نا تھا سامنے بیٹھی اسکی دل کی ملکہ اسکی بیوی تھی اپنی دل کی خوائش پر وہ جھکا تھا اور ہونٹ اسکی گردن پر رکھ دیے
" پلیز آبیان" عنایہ جی جان سے کانپ اٹھی اسکی آواز کی لڑکھڑاٹ سنکر آبیان پیچھے ہوا اور مسکراتا ہوا بام لگانے لگا  
عنایہ کو اب الگ ہی سکون مل رہا تھا شاید یہ محرم کا اثر تھا یا عنایہ کی دلی رضامندی جو وہ آبیان کی طرف اب بڑھ رہی تھی۔۔ 
"ناشتہ کرنا ہے"
بام لگا کر آبیان ڈراز میں رکھتے ہوئے بولا 
"نہیں میں سونگی ابھی"
عنایہ اپنے اوپر کمبل ڈال کر لیٹتے ہویے بولی 
آبیان اسکی بات سن کر دھیرے سے مسکرا کر روم سے باہر چلا گیا۔ 
****
آبش کے گھر والے مان گئے تھے شادی کے لیے ایک مہینے بعد کی آخری تاریخ رکھی تھی کیوں کے چھ مہینے بعد حسن کا مشن تھا اور پھر وہ نہیں آسکتا تھا یہ ارجنٹ ہی ہوا تھا کہ حسن کو جانا پر رہا تھا اس لیے آبش کے ابو نے بھی زیادہ نہیں کیا اور شادی کے لیے ہاں کردی 
جب آبش سے پوچھا تو آبش نے بہت بولا کہ اتنی جلدی کیوں کر رہے ہو پھر آمنہ نے آبش کو بہت۔ سمجھایا جس کی وجہ سے آبش مان گئی تھی لیکن اتنی جلدی وہ سمبھل نہیں پا رہی تھی آبش کی امی کا کہنا تھا کہ شادی سے پہلے ہر لڑکی سمبھل نہیں پاتی بعد میں خودی سب سیٹ ہوجاتا ہے 
اور اپنی بیٹی پر انھے پورا یقین تھا کہ وہ سب کا دل جیت لینگی
_____________
"تم اب جا سکتے ہو جہاں تمھیں جانا ہو اب میں یہ سب ختم کر رہا ہوں اور جو لڑکیاں ہماری قید میں ہیں ان سے پوچھ لو کہا جانا چاہتی ہیں وہاں چھوڑ دو"
آبیان لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہوئے سیکرٹری سے بولا 
آبیان نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ سب کچھ چھوڑ دینگا اور عنایہ کو لے کر باہر ملک چلا جائے گا اور بہتر علاج کرواے گا پر اتنے سالوں کا کام اتنی جلدی ختم نہیں ہوسکتا تھا اور پھر ڈاکٹر کو چیک اپ کرنے بھی آنا تھا 
سعد روز آکر عنایہ کا چیک اپ کرتا تھا اور روز ہی آبیان کو دیلاسے دلاتا تھا 
"پر بوس اچانک یہ سب..."
سیکرٹری کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے 
"ہاں بس میں اب سب کچھ چھوڑ رہا ہوں میرے لیے سب سے زیادہ ضروری عنایہ کی جان ہے جس کے لیے میں کچھ بھی کرسکتا ہوں اب تم دیکھ لو تمھیں کہاں جانا ہے "
آبیان لیپ ٹاپ بند کرتے ہویے بولا 
"پر میں کہاں جاؤنگا میں کہیں نہیں جارہا جہاں آپ وہیں پر میں"
اسنے جیسے اپنا فیصلہ سنایا 
"میں افریقہ کے جنگل میں رہنے جاؤنگا تو کیا وہاں بھی چلو گے "
آبیان آنکھوں میں شرارت لیے بولا 
"ہاں چل لونگا میں پتے توڑ لونگا"
ان دونو کا بہت پرانا ساتھ تھا وہ کیسے آبیان کو اکیلے بھیج دیتا جب کہ وہ سیدھے راستے پر جارہا ہے جب غلط میں ساتھ دیا تو سیدھے میں کیوں نہ دیتا 
"ہا ہا ہا اچھا چلو سہی ہے پہلے یہاں کہ سارے کام نپٹانے ہیں وہ کرو پھر سوچتے ہیں اس بارے میں"
آبیان قہقہ لگاتے ہوئے بولا 
"اللّه آپ کو ہمیشہ خوش رکھے"
آبیان کو خوش دیکھ کر اسنے دل میں دعا کی
******
"میم آپ کے لیے بوس نے ڈریس رکھا ہے آپ تیار ہوجائیں"
عنایہ کھانا کھا کر روم میں آئ تو ملازمہ سوٹ رکھتے ہوئے بولی
"کیوں اس وقت تیاری؟؟؟"
عنایہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ رات کے 11 بجے تیار ہونا؟؟ اور کھانے پر آبیان نے بھی کچھ نہیں بتایا 
"آپ کے لیے ایک چٹ بھی دی ہے"
ملازمہ عنایہ کی طرف چٹ بڑھاتی ہوئی بولی 
"ٹھیک ہے تم جاؤ"
عنایہ ہاتھوں میں چٹ پکڑتے ہوئے بولی 
"جاناں جلدی تیار ہوجاؤ میری بیوی کے لیے ایک بہترین سرپرائز ہے آئی ایم ویٹنگ"
عنایہ چٹ پڑھ کر شریر سی مسکرائی
اور سوٹ اٹھا کر واشروم چلی گئی 
جب باہر آئ تو بلیک کلر کی فرل اور گھیر دار والی پاؤںتک آتی میکسی گلے اور آستینوں میں ہلکی ہلکی کڑھائی کی ہوئی عنایہ پر بہت جج رہی تھی 
عنایہ نے جب خود کو آئینے میں دیکھا تو مہبوت سی رہ گئی وہ میکسی عنایہ پر واقعی بہت جج رہی تھی 
عنایہ نے اپنے سیدھے سلکی بال کھلے چھوڑ دیے تھے کیوں کے کھانے کے بعد کوئی بھی ملازمہ گھر میں نہیں ہوتا سب اپنے کورٹر میں ہوتے ہلکا سا مکیپ کرکے نیٹ کا دوپٹہ سائیڈ پر ڈالے روم سے باہر نکلی۔۔۔ 
روم سے باہر آئ تو ڈرائیور اسکے انتظار میں تھا 
ڈرائیور کو دیکھ کر عنایہ نے فوراً سر پر دوپٹہ اوڑھا اور روم میں جا کر بڑی شال لے کر خود کو ڈھاپتے ہوئے باہر آئ 
عنایہ کی آنکھیں تو آبیان کو ہی ڈھونڈ رہی تھیں 
"چلیں میم بوس نے آپ کو لینے کے لیے بھیجا ہے"
کہ اتنے میں ڈرائیور نے کہا 
"خود نہیں آیا اور دوسروں کے ہاتھ بلا رہا ہے ہہ"
عنایہ کا موڈ بگڑ رہا تھا 
تھوڑی دیر بعد گاڑی ایک ریسٹورانٹ کے سامنے رکی 
"میم آپ یہاں اتر جائیں بوس آپ کو یہی ملیں گے"
ڈرائیور گاڑی روکتے ہوئے بولا 
عنایہ گاڑی سے اترتے ہوئے دل میں آبیان کو گالیوں سے نواز رہی تھی اکیلا چھوڑ کے پتا نہیں کہاں چلا گیا
عنایہ اندر آئ تو ہر جگہ اندھیرا چھایا ہوا تھا 
عنایہ آبیان کو آواز دیتی ہوئی آگے بڑھنے لگی 
تو اچانک ایک سپاٹ لائٹ آبیان پر پڑی 
بلیک سوٹ میں آبیان بہت اچھا لگ رہا تھا 
عنایہ بس آبیان کو دیکھے جارہی تھی  
کہ آبیان نے اسکی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا 
عنایہ نے جھجھک کر آبیان کا ہاتھ پکڑا 
آبیان نے عنایہ کو اپنی طرف کھیچ کر عنایہ کی کمر پر ہاتھ رکھا اور عنایہ کا ہاتھ پکڑا 
"لیٹس ڈانس"
آبیان نے عنایہ کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا 
آبیان نے جیسے اپنا پاؤں بڑھایا ویسے گانا چلنا شروع ہوگیا 
"مجھے ڈانس نہیں آتا"
عنایہ نظریں جھکاے کہنے لگی 
"مجھے دیکھو ڈانس خود با خود آجاے گا" 
عنایہ آبیان کے ساتھ سٹیپ بڑھانے لگی 

Tum mere ho iss pal mere ho
Kal shayad yeh aalam na rahe
Kuch aisa ho tum tum na raho
Kuch aisa ho hum, hum na rahein…

آبیان عنایا کو گھومانے لگا جس سے عنایہ کی میکسی ہوا میں جھوم رہی تھی 

Yeh raaste alag ho jaaye
Chalte chalte hum kho jaayein…

Main phir bhi tumko chahunga…

ہوا میں ایک الگ ہی رونق تھی ہر سماء یہی کہ رہا تھا کہ آبیان کی محبت سچی ہے 

Aise zaroori ho mujhko tum
Jaise hawayein saanson ko
Aise talashun main tumko
Jaise ki per zameeno ko

دونوں ایک دوسرے میں گھم تھے بس گانے کی دھن پر دونوں کے پیر چل رہے تھے 


Hansna ya rona ho mujhe
Paagal sa dhoondu main tumhe
Kal mujhse mohabbat ho na ho
Kal mujhko ijazat ho na ho
Toote dil ke tukde lekar
Tere darr pe hi reh jaaunga

ایک شہزادہ تھا اور ایک ملکہ تھی دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے پورے تھے 

Main phir bhi tumko chahunga
Main phir bhi tumko chahunga
Iss chahat mein marr jaaunga
Main phir bhi tumko chahunga

گانے کے بول ختم ہوئے تو بارش کی بوندوں نے انکا استقبال کیا 
"When i hold you in my arms i feel like i am holding the whole world"
بارش کی بوندوں سے آبیان نے عنایا کو کس کر گلے لگایا اور محبت سے چور لہجے میں کہا 
عنایہ کے لیے یہ بہترین لمحے تھے عنایہ آبیان میں کہیں کھو گئی تھی 
آبیان کے حصار میں دنیا بھول گئی تھی بس یاد تھا تو آبیان کی محبت اور دیوانگی 
Happy birthday my love
آبیان دونوں ہاتھ سے عنایہ کا چہرہ تھامے کہنے لگا 
اور جھک کر عنایہ کے ماتھے پر اپنے لب رکھے 
عنایہ اسکے لمس سے آنکھیں بند کر گئی
*****
ایک مہینے میں اتنی تیاری کرنی تھی کہ تھوڑی دیر کا بھی ٹائم نہیں ملتا تھا آبش بہت تھک گئی تھی یونی پھر گھر کے کام پھر بازار میں گھومنا
اس لیے آج آبش جلدی ہی سوگئی تھی نیند میں بجتی موبائل کی بیل سے زبردستی ابکھیں کھول کر موبائل تکیے کے نیچے سے نکال کر بنا نمبر دیکھے موبائل کان سے لگایا 
"ہیلو کون" 
نیند میں آبش نے فون اٹھا کر کہا 
"تمہارا ہونے والا شوہر"
حسن نے مذاق میں کہا 
جی 
آبش کی تو شوہر سن کر ہی آنکھیں کھل گئی 
"آپ سورہی تھی سوری میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا"
حسن کہتے ساتھ فون رکھنے والا تھا کہ آبش نے کہا 
"نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے"
آبش اٹھ کر بیٹھی 
"آپ خوش ہے"
حسن نے اپنے دل کے ہاتھوں پوچھا 
اسکا دل کہ رہا تھا وہ ایک بار پوچھ لے آبش سے کہ وہ خوش ہے یا نہیں اتنی جلدی شادی لڑکی کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے 
"پتا نہیں"
آبش نے منہ بنا کر کہا 
"کیا مطلب پتا۔ نہیں اگر آپ خوش نہیں ہے تو میں شادی کینسل کروا دیتا ہو آپ کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے میرے لیے"
حسن نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر کہا 
"نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے بس سب بہت جلدی ہے اسلیے کچھ سمجھ نہیں آرہا"
آبش اسکے کہنے پر بوکھلا ہی گئی تھی پھر دھیرے آواز میں کہا 
"اوہ ایسی بات ہے تو شادی بعد میں تمھیں خود سب سمجھا دونگا ڈنٹ وری"
حسن نے اسکی بوکھلاہٹ پر شرارتی لہجے میں کہا 
"اللّه حافظ"
آبش نے اسکی بات سن کر فورن کہ کر فون بند کردیا 
اور فون کو دیکھ کر شرمیلی سی مسکراہٹ آبش کے چہرے پر آئ 
___________
"چلو یہاں سے تم بہت بھیگ گئی ہو ویسے تو یہی پروگرام رکھا تھا لیکن بارش کی وجہ سے اب دوسرا سرپرائز پلان کیا ہے"
آبیان عنایہ سے دهور ہوتے ہویے بولا 
عنایہ شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ آبیان کے ساتھ چلنے لگی 
"تمھیں یاد تھی میری برتھڈے"
عنایہ گاڑی میں بیٹھتے ہویےآبیان کی طرف منہ کرتے ہویے بولی 
" مجھے تمہاری ہر چیز یاد ہوتی ہے اور یہ تو اسپیشل ڈے تھا "
آبیان گاڑی چلاتے ہویے عنایہ کے سراپے پر نظر ڈال کر کہنے لگا 
عنایہ آبیان کی نظروں سے کنفیوز ہوتی نظریں جھکا گئی 
"تعریف بھی نہیں کی اللّه کے بندے نے تھوڑا بہت ہی انسان بول دیتا ہے"
عنایہ اپنی سوچوں میں تھی کہ آبیان نے کہا 
"چلو گھر آگیا"
آبیان گاڑی پورچ میں رکھ کے بولا 
گاڑی بند کرکے عنایہ کا دروازہ کھول کر عنایہ کو اپنی باہو میں اٹھاتے ہویے گھر کے اندر جانے لگا 
"میں چل سکتی ہو"
عنایہ تو گھبرا ہی گئی اسکے عمل پر 
"تمہارے لیے ایک اور سرپرائز ہے بیوٹی"
آبیان عنایہ کو دیکھتے ہویے محبت سے بولا 
عنایہ حیرت سے آبیان کو دیکھ رہی تھی 
"ایسے نا دیکھو محبت تو ہے کہی عشق ہی نا ہو جائے"
آبیان زو معنی لہجے میں بولا 
عنایہ مسکرا کر نظریں جھکا گئی 
آبیان اپنے روم کے باہر عنایہ کو اتارا اور عنایہ کی آنکھوں پر پٹی بھاندی 
"یہ یہ کیا کر رہے ہو"
عنایہ نے اپنے آنکھوں پر پٹی بھندی دیکھی تو فورن بولی 
"ویٹ اینڈ واچ بےبی"
آبیان کہ کر اسکا ہاتھ پکڑ کر روم میں لے آیا 
عنایہ جیسے روم میں گئی پھولوں کی خوشبو نے عنایہ کا استقبال کیا 
آبیان نے عنایہ کی آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو عنایہ حیرت سے پورا کمرہ دیکھ رہی تھی 
یہ کمرہ محل کا دوسرا بڑا کمرہ تھا پہلا عنایہ کو دیا تھا اور دوسرا آبیان کا خود کا تھا یہ کمرہ دو پورشن میں بنا ہوا تھا پورا کمرہ پھولو سے سجا ہوا تھا ہر چیز پھولو سے ڈھکی ہوئی تھی اور بیڈ کی وال پر عنایہ کی بہت ساری پیکس لگی ہوئی تھی پورا کولاج بنا ہوا تھا لائٹنگ سے عنایہ کی پیکس کو روشن کر رہی تھی 
"Will you be mine" 
 بیڈ کے ایک سائیڈ . پر پھولو سے مہارت سے لکھا تھا 
"Happy birthday my queen"
بیڈ کے دوسرے سائیڈ بھی پھولو سے سجاوٹ سے لکھا تھا 
"Happy birthday my love
You are looking gorgeous and pretty always
You have no idea how fast my heart beat when i see you 
عنایہ بس ہر چیز کو گور سے دیکھ ہی رہی تھی کہ آبیان عنایہ کی پشت سے عنایہ کے کان میں سرگوشی کرتے ہویے بولا 
اور عنایا کی کان کی لو چومتے ہویے پیچھے ہٹا 
عنایہ کا دل بھی اس کی باتوں سے زور زور سے دھڑک رہا تھا اور پھر اسکی حرکت پر عنایہ پوری سرخ ہوگئی 
"چلو اندر"
آبیان عنایہ کو سرخ ہوتا دیکھ بولا اور عنایہ کو دوسرے پورشن میں لے آیا 
عنایہ نظریں جھکاے آبیان کے ساتھ چلنے لگی 
اندر آئ تو بری سی فریم میں عنایہ کی وہی تصویر تھی جو عنایہ نے ابھی پہنا ہوا تھا
اس تصویر میں آبیان اور عنایہ کی تصویر تھی جو ریسٹورانٹ کی تھی اور آبیان عنایہ کو سر پر کس کر رہا تھا 
اور سائیڈ پر بہترین سجاوٹ سے ٹرولی پر تین فلور کا کیک رکھا ہوا تھا جس پر لکھا تھا 
"Happy birthday biwi"
عنایہ مہبوت سے ہر چیز دیکھ رہی تھی 
عنایہ کی برتھڈے اسکے گھر والے بھی بہت اچھی مانتے تھے لیکن اتنا خوبصورت اور اتنا بہترین کسی نے نہیں سجا یا 
عنایہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے
"شش یہ آنسو دیکھنے کے لیے میں نے یہ سب نہیں کیا ہے" 
آبیان عنایہ کے آنسو صاف کرتے ہوے بولا 
"تمھیں پسند آیا"
آبیان کو پتا تھا عنایہ کو سب چیزے بہت پسند آئ بس وہ اسکے منہ سے سنا چاہتا تھا 
"ہاں بہت زیادہ یہ سب دیکھ کر مجھے میرے گھر والے بہت یاد آرہے ہے"
عنایہ نے بے خیالی میں اپنے۔ دل کی بات کہ دی 
"تمہارے گھر والوں سے بھی ملوا دونگا وقت آنے پر ابھی یہ پل محسوس کرو"
آبیان عنایہ کو کیک کی طرف لے جاتے ہوے بولا 
"ہاے سچی"
عنایہ خوش ہوتی ہوئی بولی 
"ہاں مچی چلو کیک کاٹو"
آبیان عنایہ کو خوش ہوتا دیکھ عنایہ کی ناک دباتے ہویے بولا 
عنایہ آبیان کے ساتھ بے حد سکون میں تھی اور آبیان کی محبت دیکھ کر رشک بھی تھی 
عنایہ نے کیک کٹ کیا تو آبیان نے عنایہ کو کیک کھلایا 
"تم خوش ہو مجھ سے"
آبیان نے عنایہ کو اپنی طرف کرتے ہویے بولا 
ہاں خوش تو ہو اتنا اچھا سرپرائز میں نے کھبی نہیں سوچا تھا"
عنایہ جوش سے بولی 
"ایسے ہی خوش رہو اور یہ تو چھوٹا سرپرائز ہے اس سے اچھا اچھا سرپرائز دونگا تمھیں جو تم چاہو اور ای ایم سوری میں نے تمھیں وہاں بند کیا مجھے اب تک اس چیز کا پچھتاوا ہے"
آبیان عنایہ کو سینے سے لگا کر کہنے لگا 
عنایہ کو احساس ہو رہا تھا کہ وہ سچ میں شرمندہ ہے 
"کوئی بات نہیں"
عنایہ نے بہت دھیمے لہجے میں کہا 
آبیان اسکی بات سن کر دل تک مطمئن ہوا اور عنایہ پر جھکا 
عنایہ نے اپنی دلی رضامندی سے آبیان کو اپنے سارے حقوق دے دیے
اور ان کی رات ایک بہترین رات میں بدل گئی.

جاری ہے