┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


مریض نمبر اکتیس 

علما کا متفقہ فتویٰ عوام کے سامنے آگیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ساؤتھ کوریا کی مریض نمبر اکتیس کی داستان بھی عوام کے سامنے رکھ دیں۔ ساؤتھ کوریا میں ایک خاتون جن کو مریض نمبر اکتیس کا نام دیا گیا ہے، کورونا وائرس سے متاثر تھیں۔ انھوں نے نو اور سولہ فروری کے دو مسلسل اتواروں کو چرچ کی عبادتی مجلس میں شرکت کی۔ جس کے بعد جنوبی کوریا میں کورونا مریضوں کی تعداد ایک دم سے ہزاروں تک پہنچ گئی۔ اس تعداد کو تیس سے ہزاروں تک پہنچانے کی ذمہ دار یہ خاتون تھی جس نے چرچ سروس میں شریک ہوکر سیکڑوں لوگوں کو یہ وائرس لگایا جن سے مزید ہزاروں لوگوں تک یہ وائرس منتقل ہوگیا۔
 
ہمارا خیال ہے کہ اگر وزیراعظم صاحب ملک بھر کے نمائندہ علما کو اپنے ہاں بلا کر مریض نمبر اکتیس کی یہ داستان ان کو سنا دیتے تو شاید علما کامتفقہ فیصلہ کچھ اور ہوتا۔ ساتھ میں میڈیکل ماہرین کو بٹھاکر مزید یہ واضح کروا دیتے کہ ابھی تک ایسی کوئی گارنٹی سامنے نہیں آئی ہے کہ فرض نماز پڑھنے والوں کو وائرس منتقل نہیں ہوگا تو شاید ان پر بات مزید واضح ہوجاتی۔
 
حقیقت یہ ہے کہ کرونا کا مرض بہت آسانی اور تیزی سے دوسروں میں منتقل ہوتا ہے۔ ملک میں لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے، مگر لوگ مسجدوں میں جاتے رہیں گے۔ جس کے بعد مساجد ممکنہ طور پر اس وائرس کی منتقلی کا بڑا ذریعہ بنیں گی۔ اپنی سیاسی اور مذہبی قیادت کو کوئی بات سمجھانا تو شاید بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے، البتہ عوام کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ اب مقامی طور پر اگر یہ وائرس پھیلتا ہے تو اللہ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام ہر الزام سے بری ہیں۔ اسلام میں انسانی جان کی حرمت ہر چیز سے زیادہ ہے۔ کوئی ذمہ داری عائد ہوگی تو مذہبی اور سیاسی قیادت کی ہوگی۔ خدا کے دین اسلام پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی۔


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─