ناول: تنہا_سفر
از: رضیہ_احمد
قسط_نمبر_05

رامین : ہیلو ، مسٹر سمر ؟ 

سمر : جی آپ کون ؟ 

رامین : میں مسٹر بلال کی بیٹی رامین بول رہی ہوں

سمر نے بہت بڑی گالی منہ سے نکالی . تقریباً 10 منٹ سمراسے فون پر گندی گندی گالیاں دیتا رہا . اور 10 منٹ بَعْد جب اس نے بولا ، ، ہیلو ، آر یو دیئر ؟ ’ ’ 

رامین : سر میں آپکو کچھ بتانا چاہتی ہوں 

سمر : لیکن میں کچھ بھی سننا نہیں چاہتا

رامین : پلیز سر . ایک باڑ 

سمر : بقو

رامین : میں شادی شدہ ہوں اور میں اس وقت اپنے ہسبنڈ کے ساتھ ایئرپورٹ کھڑی ہوں . میں پاکستان چور کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جا رہی ہوں . مائی ڈیڈ آل ریڈی نوز ایبٹ مائی میرج ود مائی بوائے فرینڈ . میں نے آپکو یہ کہنے کے لیے فون کیا کے آپ اب میرے ساتھ رشتہ جوڑنے سے آزاد ہے

سمر نے جب رامین کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو اسکے رونٹے کھڑے ہوگئے

سمر : کب ہوئی تمہاری شادی ؟ 

رامین : بس آج صبح ہی ہوئی ہے کورٹ میرج . میں نے ابھی 5 منٹ پہلے اپنے ڈیڈ کو فون کر کے اِس شادی کےبرے میں بتایا 
سمر : اُف . . مائی گاڈ ! ! ! یہاں تمہاری وجہ سے میری جان سولی پر اٹکی ہوئی . یو ہیو توڈو سمتھنگ

رامین : کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا . . . اوکے بائے 

موم : کیا ہوا ؟ کون تھا ؟ 

سمر : مسٹر بلال کی بیٹی کا فون تھا اور وہ کہہ رہی تھی کے وہ آل ریڈی شادی شدہ ہے اور وہ اپنے ہسبنڈ کے ساتھ ابروڈ جا رہی ہے 

ڈیڈ : واٹ ؟ 
اتنی دیر میں ڈیڈ کو مسٹر بلال کا فون آیا اور انہوں نے یہ خبر ڈیڈ کو سنائی . سمر نے اپنی گاری نکالی اور ملکہ کی طرف روانہ ہو گیا . ملکہ اپنے کمرے میں بیٹھی رَو رہی تھی ، . اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کے وہ کیا کرتی . سمر ملکہ
سے بے حد محبت کرتا تھا اوراسے اس طرح تکلیف میں چھوڑنا اسےبہت ہی برا کام لگتا

ملکہ : ہیلو ؟ ؟ 

سمر : جان ،کہاں ہو ؟ 

ملکہ : دیکھو ، میں اِس وقت بات کرنے کے بالکل موڈ میں نہیں ہوں ، میں اپنے پیڑینٹس کی انسلٹ 
برداشت نہیں کر سکتی ، اسلئے جہاں تمھارے ڈیڈ شادی کرنا چاھتے وہاں کرلو میری جان چور دو پلیز 

سمر : میں تیرے بغیر مر جاؤنگا ملکہ ، مجھے بتاؤ تم کہاں ہو ؟ اگر گھر پرتوآئی ایم کمنگ 

ملکہ . کوئی ضرورت نہیں ہے . مجھے تم سے نہیں ملنا

سمر : پلیز ملکہ ٹیل میں ویئر یور آر . تم نے دیکھا تو ہے نا کے میں نے کس طرح ڈیڈ کو منع کیا . تم پاگل ہو کیا ؟ میں کیوں کرونگا ڈیڈ کی مرضی سے شادی . اور ویسے بھی مجھے ابھی اس گرل کا فون آیا شی اِس آل ریڈی میرڈ ! میری بات پر بیلیو نہیں کرتی تو میں تمہیں اسکا نمبر ٹیکسٹ کرتا تم خود پوچھ لو اس سے 

ملکہ : میں گھر پر ہوں

سمر نے ملکہ کے گھر کی گیٹ میں اینٹر کی .

 . اسےاپنی انسلٹ تو برداشت ہوجاتی لیکن اپنے پیڑینٹس کی نہیں . ملکہ کا باپ سمر کے ڈیڈ جتنا امیر تو نہیں تھا لیکن ملکہ بھی سمجھیں چاندی کی چمچی منہ میں لیکر پیدا ہونے والی اک فرد تھی . سمر نے ملکہ سے وعدہ کیا کے وہ جلد اَز جلد اس سے شادی کرے گا

سمر : جسٹ ریلکس ! وہ لڑکی جا چکی ہے ملک چور کر . اگر تمہیں یقین نہیں آتا تو اس لڑکی سے بات کرلو 

ملکہ : نہیں اسکی کوئی ضرورت نہیں ہے . مجھے بس تم اکیلا چوردو 

سمر : میں تمہاری زندگی میں تمہیں اکیلا چھوڑنے کے لیے نہیں آیا ملکہ ! ! ! چلو چُپ ہو جاؤ . ایسا کرو ، تیار ہو جاؤ لیٹ از گو آؤٹ
کہیں كھانا کہنے چلتے ہیں . میں موم کو بھی بولالیتا ہوں . چل کرو یار

 ملکہ سمر کے ساتھ تیار ہو کر نکل گئی وہاں سمرکو موم نےبھی بہت تسلی دی اور وعدہ بھی کیا کے سمر کی شادی ملکہ سے ہی گوئی . ملکہ کا موڈ کافی فریش تھا اور سمر بھی پر سکون تھا کے چلو کم سے کم موم تو ساتھ دے رہی تھی . رات کافی گہری تھی اور دونوں سمندر کے کنارے تھیحل رہے تھے . . دونوں کے بیچ میں کافی خاموشی تھی . ٹھنڈ کافی تھی اور ٹھنڈی ہوائیں اس ٹھنڈ کو چار چند لگانے میں مگن تھی . نہ جانے یہ زندگی سمر سے کیا چاہتی ہیں . اتنی مشکلوں سے اسے اپنی موم ملی لیکن باپ کا سایہ ہوتے ہوئے بھی اس سے دور تھا . سمر اپنی مرضی کا ملک تھا اور اسےاپنی مرضی کو انجام کو پہنچنا ذرا بھی دیرنہ لگتی . اسکے دِل میں کئی سوال اٹھ رہے تھے اور ان سوالوں جواب بھی . . . اب وہ اِس کش مہ کش میں مبتلا تھا کے کیا وہ سوال سہی ہے 
یا غلط ، کیا وہ جواب سہی ہے یا غلط ؟ کیا وہ فیصلے سہی ہیں یا غلط . اتنا سمر نے کبھی نہیں سوچا . بورڈنگ اسکول سے لیکر گھر آنے تک سمر نے اپنی زندگی کا ہر فیصلہ خود لیا ہے اور کبھی اپنے کسی فیصلے پر افسوس نہیں کیا . لیکن اِس رات کے پہر میں اس کے دِل اور دماغ کے بیچ اک جنگ چل رہی تھی . دِل کہتا تھا میری سنو دماگھ کہتا میری سنو . سمر نے آج تک جو بھی کیا دِل کی سنی ، دماغ کی سنتا تو شاید ڈیڈ جیسا جینا پڑلیکن اتنے عرسی بَعْد آج دم غ نے بیچ میں ٹانگ اڑانا ضروری سمجھا . اگر وہ دِل کی سنتا تو اسکی موم اس کے ساتھ تھی اگر وہ دماغ کی سنتا تو وہ ڈیڈ جیسا بالکل نہیں بننا چاہتا تھا . اس نے ملکہ کی طرف دیکھا . اور وہ سوچنے لگا کے کیا ملکہ اسکا ساتھ دے گی ؟ ؟ آج جو کچھ ہوا وہ سب ہونے کے بَعْد کیا ملکہ کا دِل صاف ھوگا ؟ بہت ہی مشکل وقت سے گزر رہا تھا سمر . لیکن اس کے پاس اور کوئی چارا بھی نہیں تھا . شاید وہ یہ سب کچھ وقت پر چھوڑنے والا ہے
ناشتے کی ٹیبل پر صرف چمچھیوں کی آواز آ رہی تھی . ڈیڈ خاموشی سے اپنا املیٹ نوش فرما رہے تھے اور موم کافی پی رہی تھی . سمر کا کچھ پتہ نہیں تھا . موم نے کئی بار سمر کے موبائل پر فون کیا لیکن کوئی ریسپونس نہیں تھا . ڈیڈ بھی گھڑی کی طرف اپنی نظریں جمائے بیٹھے تھے . اتنی دیر میں نوکر نے سمر کی گھر آنے کی خبر دی . صبح کے 9 بجے نشے میں دوتھ سمر صاحب توقیر نثار گھر میں داگھیل ہو رہے تھے . موم نے جب سمر کی یہ حالت دیکھی تو انہیں بہت تکلیف ہوئی . ڈیڈ نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھا منہ صاف کیا اور غصے سے باہر چلے گئے . سمر اپنے کمرے میں جا کر سو گیا . شام کو جب سمر اٹھا تو ڈیڈ اور وکیل بیٹھے جائِداد کا معاملا دسکس کر رہے تھے 

ڈیڈ : آؤ سمر آؤ . بڑے سہی وقت پر آئے ہو 

سمر : ڈیڈ ، کیا ہو رہا ہے 

ڈیڈ : تمہاری جائِداد كے حصہ کے بارے میں بات کر رہا ہوں 
سمر: آور تو کیا سوچا اپنے ؟ 

ڈیڈ : سوچ رہا کے تمہیں تمھارے حصہ سے بے داخل کردو 

موم نے جب یہ بات سنی تو انکا رنگ اڑ گیا . سمر نے اک زور دَر قہقہ لگایا . اور کہا 

سمر : ضرور ڈیڈ ، بہت اچھا سوچا اپنے ویسے بھی مجھے آپکی جائِداد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے . میں
 ویل اجیوکیدٹ ہوں خود کما سکتا ہوں . وائے ناٹ 

ڈیڈ : جائِداد کے ساتھ ساتھ یہ چھت بھی تمہاری نہیں رہیگی . سوچ لو 

موم : توقیر ! یہ آپ کیا کہ رہے ہیں . صرف اسلئے کیوں کے آپ کےکروباری پلانینج میں شامل نہیں ہوں چاہتا 

سمر : اوہ پلیز موم ، میری سائڈ لینا 
بند کردے . ہاں جی توقیر صاحب بتائے کاہان سائن کرنے ہیں

ڈیڈ نے فائل آگے کی ، سمر نے تسلی سے ساری فائل پڑھی اور اک اک لفظ پر مسکراتا رہا . اک نئی زندگی کی شروع واٹ ؟ اک نئی آزادی ؟ یا بربادی ؟ آگےکیا ھوگا ؟ گھر سے چھت بھی چھوٹھ گئی ،کہاں رہیگا یہ لڑکا ؟ ؟ وکیل صاحب نےموم اور ڈیڈ کو تھینک یو بولا اور گھر سے نکل گیا . اُس کے پس کچھ بھی نہیں تھانہ گھر نہ چھت ماں نہ باپ نہ پیسا . کچھ بھی نہیں . خیر . . . سمر اپنی وائٹ شرٹ اور بلیک پینٹ میں سڑک پر آوارہ چلتا ہوا نظر آیا . وہی فقیر اک بار اُس کے رستے میں آیا . اس نے سمر کی یہ حالت دیکھی تو مسکرا دیا . سمر نے اسکی مسکراہٹ میں اک چبھن سی محسوس کی ، اب تو وہ بھی فقیر تھا . کون کرے گا اسکی مدت کون دیگا اسے روتی کپڑا اور مکان ، یہ فقیر مسکرا کیوں رہا تھا . سمر بیچ رستے میں کھڑا یہ سب باتیں سوچتا رہا . بچپن سے لیکر آج تک وہ اپنی زندگی 
اکیلے کاٹ رہا تھا اور اب جب بہت وقت ہو چکا تھا تو ماں ملی ، لیکن اِس بار تو موم نے بھی کچھ نہیں کہا . لیکن وہ موم کی کیفیت سے اچھی طرح واقف تھا اسلئے اس نے موم کےبارے میں افسوس بھی کرنا چور دیا . رستے سے اک بڑی لال رنگ کی گاری سمر کے پاس سے گزری گاری کا شیشہ نیچے کیا تورابیہ آنٹی نے سمر کو گاری میں بیٹھنے کو بولا . سمر رابیہ آنٹی کے سیٹنگ روم میں سر جھکائے بیٹھا تھا . اور رابیہ آنٹی سر پکڑ کر بیٹھی تھی . 
رابیہ : مجھے تو یقین نہیں آ رہا کے فریحہ خاموش کیسے رہی 

سمر : چھوڑو بڈی ، بیٹا فقیر ہو گیا ہے تو موم کو کیا پرواہ 

رابیہ : نہیں میری جان ایسی بات نہیں ہے ، میں اُس سے ابھی بات کرتی ہوں

سمر : نو رابیہ آنٹی نو نیڈ آئی . . . آئی

رابیہ : تم چُپ رہو اپنے آئیڈیا اپنے پاس رکھو میںاسے کال کر رہی ہوں . . . ہیلو ؟ کہاں ہو تم ؟ ؟ سمر میرے پاس ہے . . . جلدی آؤ ہاں اوکے . . . ، وہ آ رہی ہے . تم ایسا کرو کپڑے چینج کرلو اور كھانا کھا لو . چلو اٹھو شاباش 

سمر نے اپنا حلیا ٹھیک کیا اور شیشے کے سامنے کھڑا ہو گیا اس نے سفید رنگ کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی . اس نے جب خود کو آئینے میں دیکھا تو خود کو فقیر کی نظر سے دیکھا . شلوار قمیض کو وہ ہمیشہ فقیروں والا لباس کہتا تھا اور آج وہ خود فقیر جیسی حالت میں تھا . جیسے ہی سمر سیٹنگ روم میں پوحونچا وہاں اس نے اپنی موم کو پایا . موم بہت پریشان تھی . سمر کو دیکھ کر وہ خوب روئی . سمر نے انسے کئی سوال کیے . آنکھوں سے . . . کیوں کے زُبان تو اس کے ڈیڈ نے اسکی بند کر ہی دی تھی . رابیہ آنٹی نے اپنی سہیلی فریحہ کو تسلی دی . سمر ایک بار بھی اپنی موم رکنے کو نہیں بولا . اور موم نے ایک بار بھی 
اپنے بیٹے کو گھر چلنے کو نہیں بولا . بڑی عجیب قسِم کی سچویشن تھی .رابیہ آنٹی بھی خاموش تھی . موم وہاں سے خاموشی سے چلی گئی . سمر ساری رات یہ سوچتا رہا کے اب روٹی کپڑا اور مکان کے لیے اسےدَر دَر کی ٹھوکریں کھانے پڑے گی . باقی سب مڈل کلاس والوں کے طرح شہر میں ہر دفتر کے دروازے پر نوکری کی دستک کرنی پڑے گی . کیسے لگے گا وہ ؟ بیحروزگر . . لاچار . . فقیر . رابیہ آنٹی نے سمر کو گاری آفر کی کےاس طرح گرمی میں اسے اپنے پاؤں نہیں کھسانے پڑینگے . لیکن آپ سب تو جانتے ہیں سمر ٹھہرا اپنی مرضی کا ملک . پیسے بھی نہیں لیے اور نکل پڑا نوکری ڈھونڈے . کئی دور چلنے کے بَعْد اک سفید رنگ کی بڑی سی گاری سمر کے پاس سے گزری . اس میں بنٹی اپنی بِیوِی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا . سمر نے جب بنٹی کی گاری دیکھی تو سوچا کے شاید وہ رک جائے لیکن وہ گاری تیزی سے اس کے پاس سے نکل گئی . اور اک بار پِھر وہ فقیر بابا اس کے پس سے گزرا . اِس باڑ وہ کچھ زیادہ ہی دانت نکال رہا تھا . اک تو اتنی بڑی 
مصیبت میں ہے اور اوپر سے اِس بابے کی طنزیہ مسکراہٹ . سمر چلتا گیا . . . چلتا گیا چلتا گیا . . . پِھر وہ ایک دفتر کے پاس پوحونچا بہت اونچی بِلڈنگ تھی . جب انٹرویو دینے کے لیے اندر گیا تو اس کےآگےکافی لوگوں کی لائن لگی ہوئی تھی . سیکٹری نے جب سمر کو پہچانا تو وہ اسے دیکھ کر حیران ہو گئی . اس دفتر کی سیکٹری سمر کی پرانی ججاننے والوں میں سے تھی . اس نے سمر کو ویٹنگ روم میں بٹھایا . کچھ ہی دیر بار باقی سب انٹرویویرس کو اطلاع ملی کے باس نے اپنے لیے نئے ایمپلوئے کا بندو باسط کر لیا ہے . سب کی طرح سمر بھی مایوس ہو کر وہاں سے روانہ ہوا . لیکن اس لڑکی نے اسے روک لیے 
سائمہ : سام ، آئی کانٹ بیلیو دس اٹس یو ؟ تم اور نوکری کی تلاش میں ؟ 

سمر : اٹس اے لانگ اسٹوری بیبس . . بائے 

سمر اسےکیا کہتا . پِھر سمر چلتا گیا چلتا گیا چلتا گیا . . . اک اور دفتر پوحونچا 
وہاں بھی اسی طرح مایوس ہوکر باہر نکلا . لوگ اسے دیکھ کر حیران تھے کے کے سمر نثار اتنا بے بس اور لاچار کیسے ہو سکتا ہے . اور جس دفتر میں بھی نوکری ڈھونڈنے جاتا وہاں کوئی نا کوئی اس کے ڈیڈ کے کاروباری دشمن ہی اسکا استقبال کرتے . سمر نے جانا کے اِس شہر میں ڈیڈ کا کاروبار جتنا چمکتا ہے اتنا ہی لوگ انہیںنہ پسند کرتے ہیں . سمر تھک چکا تھا  

 سمر ، اتنی جلدی ہار مان گئے ؟ اب تم یہ سوچو کے تمھارے ڈیڈ نے سب کیسے کھڑا کیا تھا ؟ تم تو اچھے بھلے پرے لکھے انسان ہو تمہیں تو نوکری کی کوئی فکر نہیں ہونی چاہئے   

سمر نے سوچا شاید اگر وہ ڈیڈ کی بات من جاتا تو آج یوں دھکے نہ کھانے پڑتے

ڈیڈ کی بات کیوں مانو میں ؟ وہ مجھے اپنے مطلب کے لیے استعمال کر رہے تھے . یوں تو کبھی انہوں نے میرے سرپر کبھی ہاتھ نہیں 
پھیرا مجھے ہوش سنبھالتے ہی بورڈنگ اسکول میں بھیجھ دیا تو اب کیا میں واپس جاؤں ان سے اپنی زندگی کی بیگھ مانگنے ؟ نیور

رابیہ : سام ! !کہاں ہو تم ؟ 
سمر : روم میں

رابیہ : آئی ایم سو سوری بیٹا ، میں آج بہت لیٹ ہو گئی ہوں . کیا بنا نوکری کا 

سمر : آئی ڈونٹ بیلیو دس . میرے ڈیڈ نے شہر میں اتنے دشمن بنا رکھے ہیں . آپکو پتہ ہے میں آج 3 دفتر ہو
 کر آیا ہوں اور انہوں نے نوکری مجھے میرے ڈیڈ کی وجہ سے نہیں دی . ایک نے تو بولا کے تم تو اپنے ڈیڈ کے ٹکڑوں پر پلنے والے ہو میں کیا دوں تمہیں . اور ایک نے تو اندر بھی نہیں بلایا . باہر سے ہی دیکھ کرسیکٹری کو منع کر دیا . ظاہر ہے اب ڈیڈ کو جب اپنی اولاد کے ساتھ دشمنی کرنے میں مزہ آتاہے توباہر لوگ کیا ہے ؟ ! اک وقت تھا جب مجھے ڈیڈ پر فخر تھا بٹ 
ٹوڈے آئی فیل شیم تو بے ہس سن  

رابیہ : دیکھو بیٹا ، ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی- کامیاب لوگوں کے پیچھے اکثر جیلووسی میں اس طرح کرتے ہیں . اور تمھارے ڈیڈ نے بھی کوئی شریفوں کی طرح یہ کاروبار کھڑا نہیں کیا . انسان کو جب پیسوں کا لالچ ہوجائے تو وہ امیر ہونے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے کچھ بھی . اسلئے تم جب نوکری کروگے اپنے پیروں پر کھڑے ہوگے تو تم اپنے ڈیڈ والی غلتی نہ کرنا سمپل

سمر : یا یور آر رائٹ

اُف . . زندگی اتنی مشکل بھی ہوسکتی ہے . سمر اپنا ہولیا ٹھیک کرتا ہوا رابیہ آنٹی کے گھر کی سیڑیوں سے اترا . وہاں بنٹی اور افی اسکا انتظار کر رہے تھے . كھانا کھانے کے بَعْد افی اور بنٹی 
نے سمر کو آؤٹنگ پر لے جانے کا پلان بنایا . لیکن سمر اتناک تھکا ہوا اور بیزار تھا کے بس اسے آج کے دن کے لیے آرام چاہئے تھا . بنٹی کی شکل دیکھ کر تو سمر کے آنکھوں میں خون گھول رہا تھا . یہی بنٹی آج صبح سمر کے پاس سے اپنی گاری تیزی سے گھماتا ہوا نکلا . بنٹی کی آنکھوں میں کوئی شرمندگی نہیں تھی . سمر کے لاکھ منع کرنے پر افی نےاسے کلب لے جانے کو بولا . سمر بھی چُپ چاپ افی کے ساتھ کلب چلا گیا . وہاںافی نے سمر کی فیورٹ ریڈ وائن اسےپیش کی . . سمر کے سامنے کچھ لوگ جوا کھیل رہے تھے . جن کے ھاتھوں میں پیسہ کھیل رہا تھا . کچھ دن پہلے یہ پیسوں کی گڈیاںسمر کے ھاتھوں میں بھی کھیلتی تھی . مگر آج تو اس کے ھاتھوں کی لکڑی بھی اسکا مذاق اڑانے پر مجبور تھی . کچھ دن اس طرح سمر نوکری کی تلاش میں ببھاگتا رہا . اور اس طرح وہ ا فی کے ساتھ روز کلب 
کے چکر لگاتا رہا . اور بنٹی سے بھی کوئی بات چیت نہ ہوتی . اک دن سمرگیمبلنگ کی ٹیبل پر بیٹھ کر یہ نوٹوں کی گدیاں دیکھ رہا تھا . کلب میں سب کوسمرکےبارے میوں معلوم تھا اسلئے کوئی اسے منہ نہیں لگاتا . صرف ایک افی ہی تھا جو اسکا تھوڑا بہت ساتھ دیتا . بنٹی نے سمر کو نوٹوں کی گدیوں طرف دھیان کرتے ہوئے دیکھا . اور سمر کو جوا کھیلنے کی آفر کی 

بنٹی : کیا ہوا سام ؟ چاہئیے کیا ؟ 

سام : واٹ ؟ ؟

بنٹی : پیسے چاہئیے ؟ ؟

سمر : تو دیگا ؟

بنٹی : ہاں دے بھی سکتا ہوں 
سمر نے منہ سے ایک بہت بری گالی دی 
بنٹی : ہاہاہا کیا ہوا ؟ غصہ تیرا ابھی تک اترا نہیں . ابے چور نا یار ویسے بھی میری وائف میرے 
ساتھ تھی تجھے گاری میں بٹھا کر اپنی شان خراب نہیں کرنی تھی میں نے . سمجھا کر نا

افی : شٹ اَپ بنٹی ! تونے سمر کے ساتھ ٹھیک نہیں کیا بجاے اِس کے ، کے تو اسکی ہیلپ کرے تو تانے مار رہا ہے 

بنٹی : سمر تیرے بچپن کا دوست ہے میرا ٹین ایج کا . تو مجھ سے زیادہ تیرا فرض بنتا ہے

سمر : میں جا رہا ہوں

افی : اوئے بیٹھ اسکو تو میں ٹھیک کرلونگا ، تو گیم دیکھ

افی بنٹی کو زبردستی سائڈ پر لگایا اور وہاں اندونو میں خوب بحث چلی . سمر انہی نوٹوں گڈوں کو نوٹ کر رہا تھا افی نے سمر کے گندھے پر ہاتھ رکھا اور چُپ چاپ بیٹھ کر اس کے ساتھ خاموشی سے گیلمبنگ کی گیم دیکھنے لگا . سمر کی آنکھوں میں نوٹوں کی گڈوں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا . سامنے رکھی ریڈ وائن بھی اسے اپنے 
پاس بلا رہی تھی . اس نے اک نظر افی کو دیکھا ، . . . افی سمجھ گیا 

افی : کیا سوچ رہا ہے

سمر : کھیل 

 نے سمر کے ہاتھ میں دس ھزار روپے کی نوٹوں کی گڈی پکڑائی اور سمر نے کھیل کھیلنا شروع کیا . صبح آذان کا وقت تھا اور سمر اس وقت تقریباً دو لاکھ جیت چکا تھا . وہ جب باہر نکلا تو اسکے کانوں میں آاذان پڑی . آذان کو سنتے ساتھ ہی اس نے اک زور دَر قہقہ لگایا

سمر : ابے ! ! آج تو اوپر والا بھی مہربان تھا میرےپے

عرفان : ہیپی ؟ ؟ ؟ 

سمر : ہاں یار بہت

جاری ہے ۔۔۔۔