ناول: تنہا_سفر
از: رضیہ_احمد
قسط_نمبر_04

سمر : موم ؟ ؟ ویئر آر یو ؟

موم : مسز فرہاد کے گھر پر ہوں . . . کیوں ؟ 

سمر : وین آر یو کمنگ ہوم ؟ 

موم : پتہ نہیں بیٹا ، میرے پس گاری نہیں ہے مسز فرہاد کا بیٹا آئیگا 
تو میں گھر آ پائوں گی 

سمر . موم . . . ٹیکسٹ میں ہر ادریس میں آپکو پک کرنے آ رہا ہوں

موم : آر یو شیور ؟ 

سمر : یا موم ، کسی کا احسان لینے سے تو اچھا ہے کے

موم : اوکے

سمر : موم آئی ایم جسٹ کمنگ ٹیکسٹ میں تھے ادریس

موم : اوکے بیٹا 

واٹ ؟ ! موم کو سمر کی یہ کال سن كے کافی حیرانی ہوئی . وہ اک طرف سے خوش بھی تھی اور حیران بھی . انہوں نے جلدی سے گیٹ کی طرف اپنے قدم بڑھائے اور اتنی دیر میں سمر کی گاری بھی آ چکی تھی . سمر گاری سے نکلا اور اپنی موم کے لیے دروازہ کھولا . موم سمر کی اِس حرکت پر کافی حیران تھی . سمر خاموشی سے گاری چلا رہا اور موم وقفے وقفےسے سمر کی 
طرف دیکھتی رہی . موم نے سمر سے بات کرنا چاہی لیکن ان کو کوئی الفاظ نہیں مل رہے تھے . سمر کے موبائل پررنگ ہوئی اور اسنے فوراً اس کال کو کٹ کر دیا . جب دونوں ماں بیٹا گھر پوحونچی تو موم نے سمر سے بات چھیری

موم : سمر ؟ 

سمر : یس موم ؟

 موم : آج تم . . . میرا مطلب ہے

سمر : میں بڈی سے مل کر آ رہا ہوں

موم مسکرائی اور انہوں نے اپنے بہن اپنے بیٹے کی طرف دیکھا . سمر نے اپنی موم کو کافی ارسہ با د ہگ کیا . لاسٹ ٹائم جب سمر پانی موم کو گلے ملا تھا اس وقت وہ صرف 12 سال کا تھا . پِھر بورڈنگ اسکول سے واپس آنے کے بَعْد سال میں دو باڑ عید پر ہگ ہوتا رہا . یہ بھی بس ایک فارمیلیٹی کی طرح ہوتا تھا کیوں کے عید والے دن بھی ان دونوں میاں بیوی کے کام ہی 
ختم نہیں ہوتے تھے . اور سمر اپنا دن افّی اور بنٹی کے ساتھ بتیایا . سمر کی آنکھوں میں آنسو تھے اور موم کے چہرے پر سکون . دونوں ماں بیٹا رات گئے تک گارڈن میں بیٹھے رہے . زیادہ بات چیت تو نہیں ہو رہی تھی ان کے بیچ میں لیکن پِھر بھی اک دوسرے کو اشاروں میں سمجھا جا رہا تھا

موم : سمر ، تم جب سے بڑے ہوئے ہو تم گھر پر نہیں رہتے 

سمر : سیم تو یو موم

موم : میں نے جانتی ہوں . . اینڈ آئی ایم سوری فور دس بیٹا مگر کیا کروں تمھارے ڈیڈ کی وجہ سے گھر سکون نہیں ملتا . . . اور میں نے اتنی دیر تک تمہیں خود سے دور رکھا

سمر : بہت ظلم کیا اپنے دو یو نو دیٹ ؟ 

موم : ہاں ، لیکن تم بھی تو ا آگےسے

سمر : آئی ایم سوری موم . . . مجھے بڈی نے اِس بات کا احساس دلایا ہے

موم : شی اِس مائی ڈارلنگ

سمر : صبح کا وقت ہونے والا ہے آئی تھنک وی شُوڈ گو اینڈ ریسٹ 

موم : یا گڈ نائٹ سلیپ ویل 
سمر : سیم تو یو موم

موم بہت خوش تھی اور سمر بھی سکون سے جا کر سو گیا . کچھ دن بَعْد بنٹی کی شادی تھی . سمر افّی کے بتائے ہوئے لوکیشن پر پوحونچا . وہاں زور و شور سے بیچلر پارٹی چل رہی تھی . سمر اس پارٹی کے نشے میں کہیں کھو گیا . سمر بے حد خوش تھا . اسے اپنے دوست کو چیڑنے سے فرصت کہاں تھی ؟ ملکہ بھی وہاں 

ملکہ : بڑے خوش نظر آ رہے ہو

سمر : ہاں یار ، میرے دوست کی شادی ہے

ملکہ : ہممم آئی ایم ہیپی فور ہم 

سمر : بائےدی وے تم یہاں بیچلر پارٹی میں کیا کر رہی ہو ؟ ؟ ؟ 

ملکہ : میں بھی تو اک بیچلر ہوں

سمر : ہاہاہاہاہ ، گڈ ون یار ، بٹ دس اِس آ من پارٹی یو نو . گرل شُوڈ ناٹ بے آلائوڈ ایکچولی 

ملکہ : سام ، مجھے بنٹی نے بلایا ہے اور ذرا اپنی نظر ادھر ادھار گھماؤ تمہیں اور بھی خواتیں نظر آئینگے 

سمر : کیا نظر آئیں گی ؟ ؟ 
سمر نے جب ملکہ کے منہ ، ، خواتیں ’ ’ جیسا لفظ سنا تو اسکی ہنسی رکنے کا نام نہیں لیرہی تھی . ملکہ سمجھ گئی

ملکہ : ہنس کیوں رہے ہو ؟ 

سمر : واٹ ھیل اِس خواتیں ؟اصترح کے ورڈز جاہل لوگ استعمال کرتے ہے

ملکہ : اچھا تم بڑے پڑھے لکھے ہو تم ہی بتا دو کیا ورڈ یوز کروں 

سمر : بیبس ، آں ہوٹیز ، سمتھنگ لائک دیٹ ! کیا کہتی ہو ؟ 

ملکہ : شٹ اپ ! آئی ڈونٹ تھنک دیٹ یو آر سریس آر یو ؟

سمر نے جب یہ سنا تو سارے عاماسے گلے لگا لیا . ملکہ کو بھی بہت اچھا لگا . پارٹی کے بَعْد دونوں نے ٹہلنے کا پروگرام بنایا . اسلئے دونوں چپکے سے پارٹی سے غائب ہو گئے . بس یہ خوشیوں بھری رات سمر نے خود كے ملکہ کے نام کردی . . .اس ترح کئی راتیں سمر نے ملکہ کے نام کردی . سمردن با دن اپنی ھدین حدیں پار کرتا چلا جا رہا تھا اوراسےدنیا کی کوئی پرواہ نہیں تھی . ملکہ 
بھی اسکا ساتھ دینے لگی . سمر کے ڈیڈ سمر کی شادی مسٹر بلال کی بیٹی سے کرنے پر طلے ہوئے تو اُدھر سمر نے ملکہ کے ساتھ اپنی زندگی بتانے کا فیصلہ کر لیا تھا . موم سمر کا ساتھ دے رہی تھی اور سمر اپنی لائف انجوئے کر رہا تھا . سمر کو اپنے ڈیڈ كے پسےاڑانے کا بہت شوق تھا . وہ جانتا تھا کے ڈیڈ اتنی آسانی سے اسے پیسے نہیں دیتے لیکن کوئی بھی چکر چلا کر وہ اپنی من مانی کر ہی لیتا . موم کے لاکھ منع کرنے کے باوجود سمر نے 1 ہفتے میں تقریباً 10لاکھ روپے . اڑا دیئے . کبھی ملکہ کے لیے گفٹس تو کبھی افّی اور بنٹی کے لیے پارٹی ارینج . اک دن صبح ناشتے کی ٹیبل پر سمر نے ڈیڈ سے پِھر پیسوںکی ڈیمانڈ کی . بس پِھر کیا ڈیڈ نے بھی اپنی ڈیمانڈ ان کے سامنے رکھ دی

سمر : ڈیڈ پلیز یار ، میں پہلے ہی آپکو بول چکا ہوں کے میں یہ شادی نہیں کرنے والا

ڈیڈ : اٹس آبزنسن ڈیل 

موم : تو اسکو بزنسن میں رہنے دے بچو کی زندگی کیوں خراب کرنا چاھتے ہیں ؟ 

ڈیڈ : ھی اِس مائی سن اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کے مجھے اِس کے ساتھ کیا کرنا ہے ! آئی سمجھ ؟ 

موم : ہاں تو باپ بن کر کریں قصائی بن کر نہیں

ڈیڈ : میرے سامنے کچھ زیادہ ہی منہ کھولنے لگی ہو تم . یہ میرا گھر ہے یہاں وہی ھوگا جو میں چاہونگا 

سمر : اور یہ میری زندگی ہے . میںوہی کرونگا جو میں چاہونگا

یہ کہہ کر سمر وہاں سے نکل گیا . ڈیڈ اپنی ضد پر تھے اور سمر بھی انہی کا بیٹا تھا . موم نے اپنے شوہر کا ساتھ دینا مناسب نہ سمجھا . ڈیڈ بھی غصے سے لال پیلے ہوتے ہوئے گھر سے باہر نکل گئے

بنٹی کے نکاح کے ترقیب پر سب دوستوں نے شلوار قمیض پہن نا کاپروگرام بنایا . ظاہر سی بات ہے اب مولوی صاحب کے سامنے کچھ تو اسلامک ماحول بنانا بنتا ہے . عجیب دنیا ہے پیسےوالو کی بھی . مولوی صاحب نے اُدھر نکاح کے بول پڑنے شروع کیے اور ادھار بنٹی نے ، ، قبول ہے ’ ’ بول دیا . سمر کی ہنسی رکنے کا نام ہی نہیں لیرہی تھی . جیسے ہی یہ ، ، تماشہ ’ ’ ختم ہوا سمر باہر لانچھ میں جا پوحونچا اور اپنی زگرٹ کو امپورٹینس دینے لگا . وہاں ملکہ بھی اپنی ترادیشنکال ڈریس میں کیا خوب لگ رہی تھی

سمر : تم بھی پہن کر آئی ہو ؟ 

ملکہ : ہاں کیا کرتی میں ، شادی کا کوڈ ڈریس بھی تو یہی ہے ، . بی اسلامک

 سم:ر ہا ہا یہ صرف اس مولوی کو خش کرنے ک لیے ہے اسے جانے دو پھر دیکھنا
میں سوچھ رہا تھا کے کیا دو لوگ نکح کے باداسترہ زنگی کیسے گزارتے ہونگے

ملکہ : اپنے پیڑینٹس کو ہی دیکھلو 

سمر : ملکہ ، وہ اک کمپرومائز ہے شادی نہیں

ملکہ : لیکن رہتے تو ساتھ ہیں نا 

سمر : ہاں

ملکہ : ھم . . . ویسے تم نے کیسی لائف سوچی ہے 

سمر : یار اک ساتھ رہنے کے لیے شادی جیسی چیز ضروری نہیں ہے ، ہم 21وی صدی میں رہتے ہیں پِھر بھی اس ترح آئی ڈونٹ لائک تو دو دس

ملکہ : لیکن ہم اک اسلامک کنٹری سے بےلونگ کرتے ہیں 

سمر : یا آئی مین . . . کچھ تو چینج ھونا چاہئے

ملکہ : کیسا چینج

سمر : جیسا ویسٹرن کلچر میں ہوتا ہے یو نو

ملکہ : لیکن ہمارا معاشرہ اِس بات کی ہمیں اِجازَت نہیں دیگا 

سمر : آئی کانٹ بیلیو یو ، یہ تم نے مولوی جیسی باتیں کب سے کرنی شروع کردی . مجھے لگا کے تم اک بہت آزاد خیال کی مالک ہو

ملکہ : یو نو واٹ ؟ میں اپنی کزن کی شادی پر اامریکہ گئی تھی اور وہاں ایک لڑکی تھی جس کے بف نے اسے پریگننٹ کر کے چور کے باغ گیا تھا ابھی وہ اپنے بچے کو اکیلے سنبھال رہی ہے اوراسے صرف اپنی موم کی سپورٹ مل رہی ہے . شی نیڈذ آ پارٹنر لیکن کوئی بھی اس کے بچے کی وجہ یوز اپنی گرل فرینڈ نہیں بناتا . تو میرے ذہن میں خیال آیا کے . . شادی کرنا ہی بہتر ہے

سمر : لیکن شادی والے کام تو سب کر لیے نا تم نے ؟ 

ملکہ نے جب یہ سنا تو اسکا چہرہ شرم سے لال ہو گیا . سمر کی وہی ڈیشنگ والی سمائل

سمر : اوکے ، لیٹ ’ س گٹ میرڈ . تم بھی خوش اور میں بھی

ملکہ : ابھی تو تم بول رہے تھے ، کے تم شادی نہیں کروگے

سمر : اب تمہاری خوشی خاطر شادی بھی کرنی پڑی تو کرونگا . کیا کروں ؟ ؟ دِل کے ھاتھوں مجبور ہوں 

ملکہ : ہممم بڑے رومینٹک ہو رہے ہو

سمر : آئی ڈونٹ ہیو اینی پروبلم ود دس

ملکہ : ہا ہا ہا ہ ! اچھا سنو تمہاری موم نہیں آئیں گی کیا شادی پے ؟ 

سمر : ہاں وہ آئیں گی

مہندی کی ترقیب میں کافی حلہ 
 مچا ہوا تھا . اُدھر سمر اور ملکہ نے اپنے کپل ڈانس سے محفل میں چھاڑ چند لگا دیئے . سمر کی موم پہلے سے زیادہ خوش اور پرسکون نظر آ رہی تھی . انہیں اپنی بیٹے کی خوشی کے الاوہ اور کچھ نہیں چاہئے تھا . وہاں موم کی ملاقات ملکہ سے بھی ہوئی . ملکہ سمر کی موم کی شخصیت سے کافی امپریس تھی . اور سمر بھی کافی زیادہ شرما رہا تھا . ابھی موم سامنے آئی ہے تو شرافت دکھانی ہی پڑتی ہے . کیا کریں مجبوری ہے . رات بہت گہری تھی اور ملکہ کا ڈرائیور کا کچھ پتہ نہیں تھا اسلئے موم اورسمرنے ملکہ کو گھر چھوڑنے کی سوچی

موم : اور ملکہ کیا کرتی ہو تم آج کل 

ملکہ : کچھ نہیں آنٹی ، سب ان میریڈ لوگوں کی طرح چل ہا ہا ہا   

موم : ہاں ، تم لوگوں کی تو عمر ہے چل کرنے کی . تم نےآگےکیا کرنے کا سوچا ہے ؟ 

ملکہ : میرا فیشن ڈیزائننگ کا پروگرام ہے . آئی ایم گوئنگ تو جوائن این اقادمی ویری سون

موم : یہ بہت اچھا ہے ، . تم سمر کو بھی سمجھاؤ سارا دن گھومتا رہتا ہے اپنے دوستوں کے ساتھ 

سمر : آئی ڈونٹ بیلیو یو موم ، ابھی تو اپنےکہاں کے ہم جوان لوگوں چل کرنے کے لیے ہوتے ہیں 

موم : ہاں رائٹ ، لیکن لائف کو تھوڑا سریس ہی لینا چاہئے 

سمر : جتنا اپنے لیا ہے
ملکہ : و یری بیڈ سمر ! ! آنٹی اِس رائٹ . آپ فکرنہ کرے اسکو کام پے لگانا آتا ہے مجھے

سمر نے مڑ کر دیکھا . . . اور کہا

سمر . واٹ ڈو یو مین ؟ اب میں تمھارے ساتھ درزی کا کام 
کرونگا ؟

ملکہ : آئی ڈڈ نوٹ سے دیٹ ہاہاہاہاہا

موم : اوکے ملکہ ، تمہارا گھر آگیا . اٹ واز سو نائس میٹنگ یو . کبھی گھر انا . وڈ لو تو اسپینٹ مور ٹایم ود یو

ملکہ : آف کورس ، آنٹی ، آپ بھی آئیگا . گڈ نائٹ یو بوتھ 

موم اور سمر کافی خوش تھے . اور ملکہ کے بارے میں ہی بات کرتے رہے . بارات اور ولیمہ کا فنکشن بھی بہت اچھا تھا . موم باقی سب خواتیں سے زیادہ پیاری لگ رہی تھی . سمر کے اندر کہیں نا کہیں اِس بات کی خوشی تھی کے آج اسےاسکی موم مل گئی . اگلے دن موم کے کہنے پر سمر نے ملکہ کو اپنے گھر بلایا . تو ملکہ سمر سے ملنے اس کے گھر چلی آئی . سمر اور ملکہ لنچ میں بیٹھ کر موم کا انتظار کر رہے تھے کے اک بلیک کلر کی گاری گیٹ کے اندر داگھیل ہوئی . سمر نے جب ڈیڈ کی گاری دیکھی 
تو اسکا موڈ اوف ہو گیا اور اس نے ملکہ کو اندر چلنے کی آفر کی . ڈیڈ نے جب سمر کی یہ حرکت دیکھی تو انہوں نے سمر کو روکنا مناسب سمجھا

ڈیڈ : ہو اِس دس ؟ اور میرے گھر پہ کیا کر رہی ہیں ؟ 

سمر : آہ ، ڈیڈ فور یور کائنڈ انفارمیشن شی اِس شی مائی گرل فرینڈ ملکہ عباس 
ملکہ : ہیلو انکل

ڈیڈ : کون عباس ؟ 

ملکہ : فرحان عباس 

ڈیڈ . اوہ . . . سمر مجھے تم سے اک بہت ضروری بات کرنی ہے . تمہاری شادی کے سلسلے میں

سمر : مجھے بھی کرنی ہے میری شادی کے سلسلے میں

ڈیڈ : مطلب ؟

سمر : مطلب یہ کے آپکی پسند کی شادی تو میں نہیں کرونگا ہاں البتہ میں ملکہ سے ہی شادی کرونگا 

ڈیڈ : تم جانتے ہو تم کس سےبات کر رہے ہو ؟ 

موم : یہ اپنے ڈیڈ کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کر رہا اور میں اِس رشتے سے بے حد خوش ہوں

ڈیڈ : میں اس کا باپ ہوں میں جہاں کہونگا وہاں اسکی شادی ھوگی . یہ میرا آخری فیصلہ . اور تم لڑکی ، جاکے اپنے باپ سے بول دو کے میرے ساتھ کاروباری ڈیل کرنے کی سوچ چور دے .

سمر : ڈیڈ ! ! بیہیو یورسیلف ؟ ! یہ میری مہمان ہے

موم : اور میری بھی . میں ملکہ کی موم کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں . وه بہت اچھے لوگ ہیں ، . اپنے عباس صاحب کے ساتھ کاروبار نہیں 
کرنا مت کریں . لیکن اس طرح اِس کے ماں باپ کی بیزتی تو مر کریں . تم دونوں آؤ میرے ساتھ اندر . ہم لوگ چائے پیتےہیں

ملکہ کی آنکھوں میں آنسو تھے . اس نے معذرت کرتے وہاں سے روانہ ھونا مناسب سمجھا . سمراسے روکتا رہا لیکن وه اتنی تکلیف میں تھی کے وه وہاں سے چلی گیی . اور گھر میں موم اور ڈیڈ کے بیچ میں اک نئیمپا بھارت شروع ہوگئی

موم : میں سمر کو یہ شادی نہیں کرنے دونگی اور آپ بھی اسکا پیچھا چھوڑدیں . وه لڑکی میرے بیٹے لائک ہی نہیں ہے 

ڈیڈ : تو تمہارا بیٹا کونسا مسٹر . بلال کا داماد بن نے کے لائک ہیں ؟ اٹس جسٹ ا بزنس ڈیل وائے ڈونٹ یو گٹ دیٹ ؟ 

موم : بزنس ڈیل کے اور بھی تریقے ہوتے ہیں طوقیر ، لیکن بیٹے کو کیوں قربان کرنا ؟ میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دونگی 

ڈیڈ : فریحہ ! اِس گھر کا ملک میں ہوں یہاں وہی ھوگا جو میں چاہونگا 

موم : ہاں اپنے میرے بیٹے کو مجھ سے دور کیا . اپنے سمر کو بورڈنگ اسکول بھےجا اپنے ہمارے زندگی میں زہر گولہ ! ! میرا بیٹا سمر . . . اکیلا رہا اور سسکتا رہا

ڈیڈ : اوہ تو آج تمہیں اپنا بیٹا یاد آگیا ، . اس وقت کہاں ہوتا ہے تمہارا بیٹا جب تم اسے میرے سامنے ذلیل کر رہی ہوتی ہو 

موم : وه سب مجھے آپکی وجه ایسا کرنا پڑا لیکن اب نہیں . میں یہ شادی ہر گز نہیں ہونے دونگی اور اگر اپنے ایسا کوئی بھی قدم اْٹھایا تو دیکھ لینا

ڈیڈ : آہ جسٹ شٹ اپ

سمر : یو جسٹ شٹ اپ ڈیڈ


 ان دونوں کی اوآزیں بلند ہوگئی

سمر : انف اِس انف ڈیڈ ! ! آپکو کوئی حق نہیں پوحونچتا کے آپ میری موم سے اس طرح بات کریں ! ہائو دڈےر یو تو ٹاک تو مائی مدر لائک دیٹ

ڈیڈ : اوہ ! ! تو تمہیں تمہاری ماں یاد آگئی ؟ کتنے فیک ہو تم

سمر : تو آپ کتنے ریئل ہیں ؟ میری شادی اپنے مطلب کے لیے کرنا چاہتا ہیں اور میں چُپ بیٹھوں ؟ 

موم : سمر

سمر : بولنے دے مجھے موم ! آپکو اگر مسٹر بلال اتنے ہی پسند ہیں تو آپ کیوں نہیں شادی کر لیتی . لیکن میری
موم کو چور دینا سمجھے

ڈیڈ نے سمر کے اوپر ہاتھ اٹھایا اور اک زور دَر تھپڑ سمر کے منہ پر مارا . موم نے سمر کو سنبھالا لیکن سمر
کی نظریں نیچے ہونے کا نام نہیں لےرہی تھی

ڈیڈ : فریحہ ، اسے بولو یہ دفعہ ہو جائے یہاں سے . مجھے اسکی شکل نہیں دیکھنی 

سمر : یہ گھر جتنا آپکا ہے اتنا میرا بھی ہے ڈیڈ

ڈیڈ : میں تمہیں اِس گھر سے اِس جائداد سے بے دخل کر سکتا ہوں تمہاری اِس غلطی کی وجہ سے . . . انڈر اسٹیند

سمر : تو ٹھیک ہے مجھے نہیں چاہئے آپکی یہ دولت ! نکال دے مجھے لیکن اک بات یاد رکھے ڈیڈ ، اک دن یہی دوالت اور یہی کاروبار آپکو نوچ کے کھا جائینگا . اور جس مسٹر بلال کے لیے آپ مرتے ہیں نا وہی اک دن آپکو خود مرنے کے لیے چوردیگا! اتنی دیر میں سمر کے مو بایل پر اک ان نون نمبر بار بار کال کر رہا تھا 
بار بار دیسکوننیکت کرنے کے بعد سمر اس کال کو ری سیو کرنے پر مجبور ہو گیا

جاری ہے ۔۔۔